Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی کے نرخنامے اور زمروں کا ازسر نو جائزہ

خالد السلیمان ۔ عکاظ
بجلی کمپنی صارفین کو بل قسطوں میں ادا کرنے کا اختیار دے تو یہ اچھی بات ہے۔ اس سے انہیں فائدہ ہوگا۔ بعض صارفین بجلی کے خرچ سے سر پر آنے والے قرضوں کی تنظیم نو کرسکیں گے۔ بجلی کا کنکشن کاٹے جانے کی آفت سے بچ سکیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بجلی کا بل کوئی ایسی شے ہے جسے ایک مرتبہ خرید لیا جائے تو اسکی آخری قسط ادا کرکے اسکا قرضہ بے باک ہوجائے؟ ظاہر ہے اسکا جواب نفی میں ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ بجلی بلا انقطاع خرچ ہوتی ہے۔ بجلی کے بل پے درپے آتے رہتے ہیں لہذا قسطوں میں بجلی کے بل کی ادائیگی سے بجلی کے خرچ کی لاگت کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ میری سوچی سمجھی رائے یہی ہے کہ بجلی کے بل قسطو ںمیں ادا کرنے کی سہولت دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ مسئلے کو سرد خانے کے حوالے کردیگا۔ مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ 
میرے خیال میں مسئلے کی جڑ بجلی کے نرخنامے میں مضمر ہے۔ جب تک اس پر نظر ثانی نہیں ہوگی معاشرے میں فرد کی آمدنی اور بجلی کے بل میں توازن قائم نہیں ہوگا تب تک مسئلہ چلتا رہیگا۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں بجلی کے صارفین کے پہلے زمرے کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ یہ وہ زمرہ ہے جس سے بجلی کے نرخ کم وصول کئے جاتے ہیں۔ ایسا ہوگا تو صارفین کی بڑی تعداد کے سر سے بوجھ ہٹ جائیگا۔
اگر معاملہ توانائی کے شعبے کے لئے سبسڈی میں تخفیف کی مالیاتی پالیسی سے میل نہ کھا رہا ہو تو ایسی صورت میں اس پالیسی پر عملدرآمد کو ملتوی کرنا یا اس میں مزید لچک پیدا کرنا قابل قبول ہوگا۔ دنیا جانتی ہے کہ سرکاری پالیسیوں یا قراردادوں پر ہمیشہ نظر ثانی ہوتی رہتی ہے۔ جب بھی ضرورت پڑتی ہے سرکاری فیصلے میں ترمیم کرلی جاتی ہے۔ بجلی شہریوں کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بیشتر لوگ بجلی کے بھاری بل سے پریشان ہیں۔ جب سے نیا نرخنامہ نافذ کیاگیا ہے تب سے اکثر صارفین انتہا درجے کفایت شعاری سے بجلی خرچ کررہے ہیں۔ اسکا صاف مطلب یہ ہے کہ انہیں بجلی کی جتنی ضرورت ہے وہ اس سے بھی کم خرچ کررہے ہیں۔ لہذا جب تک بجلی کے صارفین کے زمروں اور نرخناموں کا زمینی حقائق کی بنیاد پر جائزہ نہیں لیا جائیگا تب تک بات نہیں بنے گی۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: