Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قوم میں صبر کا فقدان کیوں؟

***صلاح الدین حیدر***
پاکستانی قوم میں شاید صبر کا فقدان ہے۔ـہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم بلا وجہ اور خوامخواہ کی توقعات قائم کرلیتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی کام کو مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ کسی کے پاس الہ دین کا چراغ یا جادو کی چھڑی نہیں ہوتی جس سے چراغ کو رگڑتے ہوئے ہی، یا چھڑی ہلانے سے دنیا یکسر بدل جائے ۔ عمران خان کی نئی حکومت کو ابھی 17دن ہی ہوئے ہیں، اور رائی کا پہاڑ بنایا جانے لگا۔ امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان ،گھریلو صارفین (ہوم گیس) کی قیمتوں کا معاملہ یاپھر ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کا مسئلہ۔ ہر بات پر تنقید اور وہ بھی بلاسوچے سمجھے۔ معروضی حالات کو پیش نظر رکھنا تو ہمیں آتا ہی نہیں، عمران اور ان کی نوزائید ہ حکومت نے ملک کو احترام بخشا ہے جو عرصے دراز سے غائب تھا۔ 4 سال تو ہم وزیر خارجہ جیسے اہم معاملے کو نظر انداز کرتے رہے،پھر خواجہ آصف کو چند دنوںکے لئے عہدہ بخشا گیا۔انہوںنے قلیل مدت میںکئی ایک اچھے کام کئے اور اب تو یہ خلیج بھی پُر کر دی گئی۔ شاہ محمود قریشی نے شروع میں قوم کو ذہن نشین کروادیا تھا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کسی کے کہنے پر نہیںبلکہ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے دفتر میں بنے گی۔ ہمیں اس سے کچھ زیادہ ہی دیکھنے میں آیا ۔ قومی عزت اور احترام کومدنظر رکھتے ہوئے ، امریکی وزیر خارجہ کا خیر مقدم اسلام آباد ائیر پورٹ ایک ایڈیشنل فارن سیکریٹری نے کیا۔ یہی رواج مغربی ملکوں میں رائج ہے، مائیک پومپیو جب وزراتِ خارجہ پہنچے تو شاہ محمود قریشی نے ان کا استقبال کیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان وفود کے ساتھ 40 منٹ تک بات چیت رہی جس میں جن افراد کو شرکت کرنا تھی انہوںنے کی ۔ پاکستان کی عزت کا احترام کیا گیا۔بعدمیں مائیک پومپیو نے وزیر اعظم عمران خان سے تفصیلی ملاقات کی۔ جس میں عمران خان نے صاف طور پر امریکہ پر واضح کردیا کہ دونوں ملکوں میں برابری کی سطح پر تعلقات ہوں گے۔ ہمیشہ کی طرح پاکستان پر زبردستی کا بوجھ نہ ڈالا جائے جیسا کہ پہلے ہوتا رہا ہے ۔ 
  پرویز مشرف کے زمانے میں اس وقت کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کولن پاول نے رات کے3 بجے فون پر مشرف سے پوچھا کہ افغانستان کی پالیسی میں پاکستان امریکہ کے ساتھ ہے یا نہیں۔ مشرف کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ کہتے کہ حضور میں کل اپنے رفقائے کار سے صلح ومشورہ کرکے جواب دوں گا۔ 20/22گھنٹے کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن مشرف نے اس ڈرسے کہ کہیں امریکا انہیں بھٹو کی طرح عہدے سے ہٹا نا دے، بلا چوںچراں حامی بھرلی۔قوم کی عزت خاک میں مل گئی، یہ صرف فرد واحد کا فیصلہ تھا، پاکستانی قوم کا اس فیصلے سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔  نہ ہی فارن آفس سے پوچھا گیا ، نہ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر بحث کی گئی۔ اسی وجہ سے تو آج تک امریکہ ہم کو ڈکٹیٹ کررہاہے لیکن آج جب میں یہ سطور رقم کررہاہوں ، عمران نے کوئی بھی شرط ماننے سے صاف انکارکردیا۔ پاکستان نے اب تک اربوں ڈالر ز کا نقصان اٹھایا ہے، 70ہزار معصوم جانوںکا نذرانہ پیش کیا اور پھر بھی ہم سے کہا جائے کہ آپ افغانستان کے معاملے میں مزید کچھ اور کریں۔ دراصل امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے پاکستان پر خواہ مخواہ کی ذمہ داری ڈالتا ہے لیکن محض الزام تراشی سے کچھ نہیں ہوتا۔ عمران کے مطابق پاکستان افغانستان میں ہر قیمت پر امن چاہتاہے اس لئے کہ یہ امن ہمارے لئے ضروری ہے۔ افغانستان پڑوسی ملک ہے، وہاں کے اندرونی حالات کا ہم پر اثر پڑنا لازمی ہے لیکن امریکہ خود بھی تو کچھ کرے ۔
11ہزار امریکی فوج کابل کی حفاظت پر معمور ہے اور اب بھی 50 فیصد سے زیادہ افغان علاقوں پر طالبان اور داعش کا قبضہ ہے ۔ تو یہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کے حالات پر گہری نظر رکھے، دوسروں پر الزامات کی بوچھاڑنہ کرے ، شاید پہلی مرتبہ کسی امریکی اعلیٰ عہدے دار کو احساس ہوا ہوگا کہ پاکستان میں تبدیلی آچکی ہے۔ وہ اب ہاں میں ہاں نہیں ملائے گا بلکہ عزت کی زندگی کو ترجیح دے گا۔ امریکی  وزیر خارجہ سے ملاقات سے پہلے عمران نے کابینہ کا اجلاس بلایا اور اس میں دو 3 اہم کمیٹیاں قائم کر دیں جس میں سے ایک نے تو 80 ارب روپے کے اخراجات میں کٹوتی کرنے کی خوش خبری قوم کو سنا دی۔ یہ بات کچھ کم کارنامہ ہے جو فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی کے لیڈر مولابخش چانڈیو کی سمجھ میں نہ جانے کیوں نہیں آتی۔ شکست تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتے، تو اس میں عمران خان یا ان کے ساتھیوں کا کیا قصور؟ ہاں وزیر اعظم سے شکوہ ہمیںبھی ہے کہ ان کی حکومت نے گیس کی قیمتوںمیں ہوشربا اضافہ کرڈالا۔ 180فیصد، غضب خدا کا ،عوام پر تو جیسے آسمانی بجلی گر پڑی۔ اس وقت ایک عام5 آدمیوںکے گھرانے کا گیس کا بل 1200سے 1500روپے مہینہ آتا ہے۔اب یہ بڑھ کر 4000 روپے سے بھی زیادہ ہوجائے گا۔ اوسط آمدنی کا خاندان کیسے یہ بوجھ برداشت کر پائے گا۔ قیمتوں کے بڑھنے کے ساتھ ہی ، اسٹاک مارکیٹ دھڑم سے زمین پر آگری۔ 41000پوائنس پر بند ہوئی، ظاہر ہے کہ لوگوں کو مایوسی ہوئی ہوگی۔ عمران خاں کو دوبارہ قیمتوں کا جائزہ لینا پڑے گا۔ ہاں دوسری اچھی بات بھی ہوئی کہ سرکاری ملازمین کو اب بلا وجہ ملازمت سے فارغ نہیں کیا جائے گا ۔ 1973سے پہلے سرکاری ملازمین کو آئینی حفاظت حاصل تھی، جو بھٹو نے 1973کے آئین میں ختم کردی ۔ نتیجتاً سرکاری ملازمین حکومت وقت کے تابع ہوگئے ۔ افسر شاہی ظاہر ہے، اپنا اصل کام کرنے کے حکومتی عہدیداروں کی خوشامد میں مصروف ہوگئی جس کا نتیجہ ہم سب آج تک بھگت رہے ہیں۔ عمران خاں سے کچھ غلطیاں تو ہوئیں لیکن کئی ایک اچھے اقدامات بھی ہوئے، جن کی تعریف کرنی پڑے گی۔ محض تنقید سے کام نہیں چلے گا۔ 
 
 

شیئر: