سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الریاض“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
اسرائیل کسی بھی صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں کمال رکھتا ہے۔ حال ہی میں ایران نے بیلسٹک میزائل عراق منتقل کئے تو اسرائیل نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اعلان کیا کہ جہاں جہاں ایران کے بیلسٹک میزائل عراق میں ہونگے وہ سب مقامات اسرائیل کی فضائیہ کے ممکنہ ہدف شمار کئے جائیں گے۔
اسرائیلی عہدیداروں کا یہ بیان ظاہر کررہا ہے کہ اسرائیل نے شام میں جو کچھ ایرانی ٹھکانوں کے ساتھ سلوک کیا اسی طرح لبنانی حزب اللہ کے ٹھکانوں کے ساتھ جو اقدام روا رکھا وہی عراق میں بھی ہوگا۔ اسرائیل یہ سب کچھ خود کے دفاع کے اصول کے تحت کریگا۔
ایرانی اسرائیلی کشمکش ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں۔ فریقین عرب ممالک کے علاقوں کو اپنی مہم جوئی کا اکھاڑ ہ بنائے ہوئے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ بشار الاسد کے ہاتھ میں شام کا کوئی فیصلہ نہیں۔ وہ ایرانی حکمرانوں کے احکام کی تعمیل کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
شام میں جو کچھ ہوااور جس عنوان سے ہوا ممکن ہے عراق میں بھی ہو۔ حملہ شام میں ہو یا عراق میں، دونوں کا خمیازہ دونوں ملکوں کے باشندوں ہی کوبھگتنا پڑیگا۔ ایرانی دراندازی ہو یا اسرائیل کا ردعمل ہو، اس سے مزید تباہی ، مزید بربادی، مزید خونریزی اور ایک ملک کے فرزندوں کے درمیان مزید تفرقے کے سوا حاصل ہونے والا کچھ نہیں۔ شام کے باشندوں کو نہیں پتہ ہوتا کہ موت کا فرشتہ کب کہاں سے اتر کر انہیں دبوچ لے۔ کبھی ایران کے پاسداران انقلاب کے گولے انکا شکار کرتے ہیں تو کبھی لبنانی حزب اللہ کے وظیفہ خوار انہیں ہلاک کردیتے ہیں۔ کبھی روسی بم یا اسرائیلی میزائل انہیں اپنا شکار بنالیتا ہے۔
ایران اگر اپنے اس دعوے میں صادق ہے کہ ”اسرائیل مردہ باد تو وہ اپنے بیلسٹک میزائلوں کا رخ تل ابیب کی طرف کیوں نہیں کرتا جبکہ اس کے پاس تل ابیب تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں۔ اسے یہ کام انجام دینے کیلئے شام یا عراق میں اڈے قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو اگر وہ ایران کے کسی بھی تصرف کا عسکری جواب دینے کا دعویدار ہے تو وہ ایران سے دمشق یا جنوبی عراق بھیجے جانے والے ایرانی اسلحہ کے کاررواں کو عراق یا شام پہنچنے سے قبل ایران ہی میں حملہ کرکے ختم ہی کیوں نہیں کردیتا؟