Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غلام کون؟

یہ بات ہمارے پیش نظر ہمیشہ رہنی چاہئے کہ ایک دن ہمیں مرنا ہے ، اچھے کام کرکے اپنا نام زندہ رکھ سکتے ہیں،پیسے کی دوڑ نے ہمیں یہ بات بھلا دی کہ موت برحق ہے
زبیر پٹیل۔ جدہ
ہیلو ابو جی! ”میں “ بول رہا ہوں۔ آپ ٹھیک ہیں۔ میں ملک سے باہر صرف اسلئے ہوں تاکہ آپ کی خوراک اور صحت کا بہتر بندوبست کرسکوں۔ آپ کا اور بچوں کا مستقبل بہتر بناسکوں۔
ہیلو جناب !آپ کے والد صاحب کی طبیعت خراب ہے۔ آپ جتنا جلد ہوسکے آجائیں....اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں۔
ہیلو جناب! آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ آپ تدفین پر کب تک آسکتے ہیں تاکہ ہم انتظار کریں.... ارے یار! آپ ایسا کریں کہ تدفین کر دیں کیونکہ میرا یہاں سے نکلنا مشکل ہے۔آپ مجھے اس حوالے سے تصاویر واٹس ایپ کردیجئے اور وڈیو بھی۔ آپ کا شکریہ۔
اتنی لمبی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا آج کا نیامعاشرہ کس رخ پر پروان چڑھ رہا ہے ۔ زندگی کے ہر شعبے میں جسے اور جہاں دیکھو اپنی من مانی کئے جارہا ہے۔ انسانی اقدار کی کسی کو پروا نہیں۔ہر شخص بے ہنگم ہاتھی کی طرح دولت کی چمک میں اندھا ہوکر ادھر ادھر بھاگا جارہا ہے۔ آج ہم نے اپنی زندگیوں کو واٹس ایپ ، ٹویٹر ، سوشل میڈیااور ای میل تک محدود کردیا ہے۔آج ہم دولت کمانے کی دھن میں اپنوں سے بیگانے ہورہے ہیں۔ اسی دھن میں یہ تک بھول رہے ہیں کہ ہم آج جوکررہے ہیں وہ ہماری اولاد دیکھ رہی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کے اتنے بھی غلام نہ بن جائیں کہ وہ آپ کے اشاروں پر ناچنے کے بجائے ایک دن آپ اس جدید ٹیکنالوجی کے اشاروں پر ناچنے لگیںاسلئے اب بھی وقت ہے ،کچھ نہیں بگڑا ،اپنا احتساب کریں۔ والدین کے حقوق اور اپنے فرائض کی بجا آوری کریں۔ ایسا نہ ہو کہ جس طرح آپ اپنے والدین کو کندھا دینے سے محروم رہ گئے،کل آپ کی اولاد آپ کو اس حوالے سے مسترد کردے۔ یہ بدنصیبی ہمارا مقدر نہ بن جائے۔یہ بات ہمارے پیش نظر ہمیشہ رہنی چاہئے کہ ایک دن ہمیں مرنا ہے ۔ اچھے کام کرکے اپنا نام زندہ رکھ سکتے ہیں۔پیسے کی دوڑ نے ہمیں یہ بات بھلا دی کہ موت برحق ہے۔
 
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور تجزیوں کے لئے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

 

شیئر:

متعلقہ خبریں