ڈاکٹر شفیق ندوی کی یادیں ، باتیں ہمیشہ تازہ رہیں گی
جمعرات 27 ستمبر 2018 3:00
علوم اسلامیہ سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شفیق ایک اچھے شاعر بھی تھے
ڈاکٹر محمد ریاض۔ چوہدری
پروفیسر ڈاکٹرشفیق ندوی گو اب ہمارے درمیان نہیں رہے مگر ان کی باتیں اور یادیں دیار غیر کے ادبی حلقوں میں ہمیشہ تازہ رہیں گی ۔علوم اسلامیہ سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شفیق ندوی ایک اچھے شاعر بھی تھے ۔ علمی مشاغل انکی ہمہ وقت مصروفیت کا مستقل مظہر تھے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسفہ و مذہب کا گہرا پس منظر رکھنے والا شخص جب شعر کی طرف توجہ دیتا ہے تو اس کی شاعری میں جہاں معانی کی گہرائی و گیر ائی ہوتی ہے وہیں اس کے یہاں فکر کی ثقاہت بھی موجزن ہوتی ہے۔ دینی علوم کا حامل شاعر خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہوتے زبان و بیان کی نزاکتوں اور لطافتوں کو بھی شعوری طور پر ملحوظ رکھتا ہے۔
ہمارے یہاں غالب اور اقبال ہی ایسے شاعر ہیں جو اپنی علمی سطح کی بلندیوں کو بر قرار رکھتے ہوئے شعر کے ذریعے اپنے مخاطب کے قلب و نظر کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں ۔ ان دونوں مفکر شعرائے کرام نے ہماری پوری شاعری کو کسی نہ کسی انداز میں متاثر کیا ہے۔ ڈاکٹر ندوی بھی اسی فضا کے پر وردہ تھے چنانچہ ان کا غالب کے فکروفن سے اثر پذیر ہونا فطری امر ہے ۔
ڈاکٹر ندوی کے مجموعوں میں فکروفن کا ایک فطری ارتقائی سفر صاف دکھائی دیتا ہے ”ہو نہ گر وعدہ وفا“ کی غزلوں میں غالب کے اثرات کا اگر آغاز ہے تو”گل یہ کف ناز میں“ اس آغاز کو باقاعدہ ایک سفر کی صورت دیتا نظر آتا ہے۔ یہ اثر فنی سطح پر ہو یا فکری ، بالواسطہ ہو یا براہ راست ، ہر جگہ غالب کی چھاپ گہری دکھائی دیتی ہے مثلاً:
یہ صحرا تو ہماری گرد پا سے بھی بہت کم ہے
گئے آگے بھی ہم ان چاند تاروں سے گزر آئے
٭٭٭
جائیں گے اس جہاں سے نہ ہم لے کے حسرتیں
کر جائیں گے گناہ وہ جس کی سزا نہیں
٭٭٭
کسی کا پیرہن یعقوب کی بے نور آنکھوں پر
در زنداں سے جیسے اٹھ کے سورج ضوفشاں آئے
غالب اگر تنگ نائے غزل سے نکل کر اپنے بیان کی وسعت چاہتے ہیں تو ندوی بھی اس تنگ دامانی سے نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
لب و رخسار کی میں جلوہ سامانی سے نکلوں گا
غزل، میں اب تری اس تنگ دامانی سے نکلوں گا
وہ گیسو و رخسار کے علاوہ زندگی کے مادی مسائل کو بھی غزل کا موضوع سمجھتے ہیں
مسائل اور بھی ہیں زندگی کے
”یہ ذکرِ گیسو “و رخسار کب تک
اسی طرح وہ لہجے کی تازگی کو وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں:
لہجے میں تازگی ہو ، تقاضا ہے وقت کا
کچھ تم غزل سے دور ہو ، کچھ بانکپن سے میں
اور واقعی جب وہ لب و رخسار و گیسو کی جلوہ سامانیوں سے نکل کر ، غزل میں اپنے عصر کے کرب کو محسوس کرتے ہیں تو ایک نیا آہنگ اور نیا اسلوب سامنے آتا ہے جو جدید معاشرتی شعور سے آراستہ ہے۔ اس لہجے کو ہم کہیں” غالب کی صدائے بازگشت“ اور کہیں اس کے اسلوب کی”بازیافت“ کہہ سکتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیے:
سر بازار لوگوں نے اچھالیں پگڑیاں سب کی
کوئی جائے بچا کر اب یہاں سے آبرو کیوں کر
اسی طرح وہ جمالیاتی سطح پر بھی غالب کے حسن آفریں ماحول میں سانس لیتے دکھائی دیتے ہیںاور اسی نقطہ کمال تک رسائی کے خواہاں ہیں جو غالب کا مطمح نظر ہے:
جس طرف دیکھئے چادر ہے دھوئیں کی پھیلی
پیرہن جسم پہ شعلوں کا ہے کم خواب نہیں
٭٭٭
کیا کبھی دیکھا ہے خوشبو کا بدن بھی تم نے
ہم نے کل جاتے ہوئے رات کی رانی دیکھی
٭٭٭
دلکشی کیا شام کی ، کیا صبح کی ٹھنڈی ہوا
کہکشاں کا حسن کیا ہے تیری رعنائی کے بعد
بے پناہ تخلیقی امکانات سے معمور ہماری غزل آج بھی پہلی سی وضع داری کے ساتھ زندہ و پائندہ ہے اور ہمارے غزل گو آج بھی ریاضت فن کے لئے اس ہزار پہلو پیکر پر فریفتہ ہیں ۔ شفیق ندوی بھی اپنے مترنم و متوازن لب و لہجہ کے ساتھ بنیادی طور پر اسی رخشندہ و تابندہ صنف سخن کی زلفوں کے اسیررہے لیکن وہ جو فیض نے کہا ہے کہ :
”لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے“
جب وہ فکری سطح پر اپنی ذات کو شکست و ریخت کے گرداب سے ابھر کر اجتماعی لاشعور کی موجوں پر کائنات کے آفاقی مسائل و مشاکل سے نبرو آزما ہونا چاہتے ہیں تو صنف نظم کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔ڈاکٹر ندوی کی نظمیں اس مجموعے میں ان کے نقش اوّل سے جہاں تعداد میں زیادہ ہیں ، وہاں اسلوب اور آہنگ کے اعتبار سے بھی ان سے ایک قدم آگے ہیں۔ ان نظموں کے موضوعات متنوع ہیں اور انکا آہنگ خوبصورت ہے اور قافیوں کے التزام نے ان میں ایک نغمگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ مختلف مصرعوں میں تنوع اور زبان میں غزل کی سی چاشنی ہے۔ نظم ہو یا غزل ڈاکٹر ندوی کا لہجہ ہر جگہ نرم اور پر وقار ہے ۔ زبان و بیان کی فصاحت و لطافت کے ساتھ ساتھ معنوی بلاغت و جامعیت ان کا طرہ امتیاز رہی ہے ۔ اللہ کریم سے دعاہے کہ وہ ڈاکٹر شفیق ندوی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، آمین ۔