Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ کے دعوے محض انتخابی نعرے

سعودی الریس۔ الحیاة
امریکہ دنیا کی بڑی طاقت ہے۔ اس کے عظیم ہونے کا راز اسلحہ کی طاقت میں نہیں ....اگراسلحہ امریکہ کی عظمت کا باعث ہوتا تو اسے ویتنام کے ساتھ جنگ میں شرمناک شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔اسلحہ کے حوالے سے امریکہ اور ویتنام کا مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ویتنام کی جنگ میں امریکہ کے 60ہزار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس جنگ میں ڈیڑھ لاکھ امریکی فوجی ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہوکر شریک ہوئے تھے۔ ویتنام چھوٹا سا ملک تھا، اس کے پاس امریکہ جیسی حربی طاقت نہیں تھی۔ اس کے یہاں اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا۔
اسلحہ اورفوجی طاقت سے کسی بھی ملک کو دیگر ممالک پر برتری حاصل نہیں ہوتی۔یہ بات مسلمہ حقیقت کے طور پر مانی جارہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ طاقت کو امریکہ کی عظمت مان رہے ہیں۔ مذکورہ مسلمہ حقیقت سے ان کے اس نظریے کے چیتھڑے اڑ گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر امریکہ کی طاقت کا راز کیا ہے؟ہمارے خیال میں وائٹ ہاﺅس میں آنے والے سربراہوں کے ہاتھوں 3عناصر سامنے آئے ہیں۔ امریکہ میں پے درپے آنیوالے سربراہ وطن کے مستقبل اور اسے پوری دنیا میں اول رکھنے کے بارے میں سوچتے رہے۔ ٹرمپ ان نکات سے آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔امریکہ کی عظمت کا راز ڈالر ، امریکی کمپنیوں اور امریکی بینکوں میں مضمرہے۔ یہ تینوں حقائق امریکہ کے سابق سربراہوں کے مد نظر رہے۔ انہی تینوں عناصر نے امریکہ کو اسلحہ کے پہلو بہ پہلو دنیا میں اول رکھا۔ان 3 عناصر کے علاوہ ایک اہم عنصر یہ ہے کہ امریکہ کے اثر ونفوذ کو پھیلانے اور برقرار رکھنے کیلئے ڈالر ، کمپنیوں اور بینکوں سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا جائے۔ 
امریکی اثرو نفوذبنانے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے امریکہ نے ویتنام کے ساتھ جنگ میں اسلحہ استعمال کیا۔اسے وہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ان دنوں امریکی صدر ٹرمپ پوری دنیا کی سیاست پر اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔حق اور سچ یہ ہے کہ اثرو نفوذ کا ہدف حاصل کرنے کیلئے امریکہ کو اس کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔ 
دنیا بھر کے ممالک کے درمیان اسٹراٹیجک تعلقات موجود ہیں۔ پرانی دوستیاں ہیں، دوست ممالک ، طاقت اور اثرونفوذ سے بالا ہوکر دوست ممالک کا احترام کرتے ہیں۔ امریکہ کئی ممالک کے ساتھ اسٹراٹیجک تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔ اسے اس کی قیمت ان ممالک میں اپنے اثرونفوذ کی صورت میں مل رہی ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں کہ امریکی اثرو نفوذ کو یرغمال بنانے کیلئے کوشاں ہیں ، کچھ وہ کہ اثرونفوذ ختم کرانے کا چکر چلائے ہوئے ہیں۔ بنی نوع انساں کی فطرت یہی ہے۔اگر اسٹراٹیجک تعلقات اسٹراٹیجک گروپ میں تبدیل ہوجائیں تو اس کے اپنے کچھ قاعدے ضابطے ہیں۔ یہ قاعدے ضابطے نہ تو گرما گرمی کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کو لوٹنے کھسوٹنے کا حق دیتے ہیں۔ اگر طاقتور ملک اسٹراٹیجک گروپ میں شامل ممالک کے ساتھ گرما گرمی اور لوٹ کھسوٹ کا چکر چلائے تو اسے نہ تو دوستی کا عنوان دیا جاسکے گا اور نہ ہی اسٹراٹیجک گروپ کے تقاضوں کا علمبردار مانا جاسکے گا۔صدر ٹرمپ ابتک تجارتی ادارے کی سربراہی اور دنیا کی بڑی طاقت کی قیادت کے درمیان فرق کرنے سے قاصرہیں۔وہ انتخابی مہم کے دوران بھی کچھ کچھ کہتے رہے ہیں، اب بھی وہ سعودی عرب کے تحفظ کی باتیں کررہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مملکت کو اپنے تحفظ کی قیمت امریکہ کو چکانا پڑیگی۔یہ لہجہ خود پسندی کی انتہا کا غماز ہے۔نہ جانے وہ کس قسم کے تحفظ کی بات کررہے ہیں۔ آیا وہ ہی سعودی عرب کی حفاظت کررہے ہیں؟ ٹرمپ اس حوالے سے تاریخی سچائی کونظر انداز کررہے ہیں کہ امریکہ تحفظ کے مقابلے میں اثر و نفوذ خرید رہا ہے ۔ سعودی عرب کا مسئلہ یکسر مختلف ہے۔ اوبامہ امریکہ کے صدر 10برس تک رہے۔انہوں نے سعودی عرب کے تحفظ کیلئے کچھ نہیں کیا بلکہ اپنی مدت صدارت کے دوران ایران اور اس کے ایٹمی پروگرام کی مارکیٹنگ کرتے رہے۔ اوبامہ کی پالیسیوں میں اتار چڑھاﺅ اور اتحادی ممالک کے درمیان تعلقات کے بگاڑ کے باوجود سعودی عرب پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ سعودی حکومت کا دھڑن تختہ نہیں ہوا۔ اتناہی نہیں، سعودی عرب نے ایسے ممالک کا بھی تحفظ کیا جن کی حفاظت امریکہ کے ذمے تھی۔ صدر ٹرمپ کے تحفظ کی دھمکی کا یہ عملی جواب ہے۔ وہ سعودی عرب کے تحفظ کے حوالے سے جو دعوے کررہے ہیں وہ محض انتخابی نعرے ہیں ،اس کے سوا کچھ نہیں وگرنہ امریکی صدر اس بات کا کیا جواب دینگے کہ خطے کا دشمن نمبر ایک اسرائیل ہے۔کیا وہ اسرائیل سے سعودی عرب کو تحفظ فراہم کرنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟ مملکت کا واحد دشمن ایران نہیں۔ پہلا دشمن بھی ایران نہیں۔مغربی دنیا نے امریکہ کے لامحدود تعاون سے اسرائیل کو خطے میں باقاعدہ بنایا اور تیار کیا ہے۔امریکی صدر کے رویئے سے ان کے اتحادی بھی مطمئن نہیں ۔مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو جو اثرو نفوذ حاصل ہے، اسی طرح اسلامی دنیا میں امریکہ کو جو اثرو رسوخ ملا ہوا ہے اس کا راستہ سعودی عرب سے ہوکر گزرتا ہے۔سعودی عرب کے 20ملین باشندے مملکت کے حقیقی محافظ ہیں جو اپنی قیادت کے ایک اشارے پر تن من دھن کی قربانی دینے کیلئے24گھنٹے تیار ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: