چیف جسٹس اور وکیل کے مابین تلخ کلامی
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اور وکیل کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ ذرائع کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق اراضی دیوان قطب کی نہیں بلکہ نواز شریف نے 1986ء میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب زمین قطب الدین کے نام کی۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ محکمہ اوقاف کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کی اجازت کس قانون کے تحت دی گئی؟ وزیراعلیٰ کو کس نے اختیار دیا کہ اوقاف کی زمین کسی کو دے ؟۔
وکیل قطب دیوان قطب نے عدالت سے کہا کہ حکومتی غلطی کی سزا دیوان قطب الدین کو کیوں مل رہی ہے ؟ جس حکومت نے زمین واپس لی تھی اسی نے پھر نام کی، دیوان قطب نے اراضی آگے فروخت کردی۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ نواز شریف سمیت تمام متعلقہ افراد کو نوٹس کریں گے ، زمین سے فائدہ اٹھانے والوں سے بھی باز پرس کی جائے گی۔ اوقاف کی پراپرٹی کسی کو نہیں دی جاسکتی۔
وکیل افتخار گیلانی نے بلند آواز میں کہا کہ 25 سال بعد عدالت کیسے زمین واپس لے سکتی ہے؟۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہاں سپریم کورٹ یہ کہہ سکتا ہے اور اسے یہ اختیار حاصل ہے۔ عدالت آئین کی محافظ ہے ، اپنی آواز آہستہ رکھیں، آپ جج نہیں ہیں۔ اپنی گزارشات پر فوکس کریں۔
افتخار گیلانی نے جواب دیا کہ میں عدالت کا سینئر افسر ہوں۔ سپریم کورٹ بھی آئین اور قانون کے تابع ہے جبکہ عوام پاکستان کے آئین کے محافظ ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیشہ عدالت پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں جج آپ کے بچے ہیں۔
اس پر افتخار گیلانی نے کہا کہ میرے مقدمات اپنی عدالت میں نہ لگایا کریں۔ اسی آواز میں بات کروں گا جس میں مجھ سے ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنے ہی بنچ میں آپ کے کیسز لگاؤں گا۔ آپ جب آتے ہیں عدالت پر چڑھائی کر دیتے ہیں۔
عدالت نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف اور 1986ء کے سیکرٹری اوقاف سمیت زمین کے خریداروں کو بھی نوٹس جاری کردیے۔ تاہم وکیل نے نشاندہی کی کہ دیوان قطب الدین اور سابق سیکرٹری اوقاف وفات پا چکے ہیں۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔