معروف زمانہ (عرب بہار)کے بعد مشرق وسطیٰ عسکری ہنگامہ آرائیوں کے علاوہ مزید محاذآرائیوں کے آتش فشاں کے دہانے پر جاکھڑا ہوا ہے۔ عرب بہار کی آمد کے بعد سے یہاں کشمکشوں کا لامتناہی سلسلہ چل کھڑا ہوا ہے۔ کسی ایک بحران کا آتش فشاں خاموش ہوتا ہے تو دوسرے بحران کا آتش فشاں سرابھار کر کھڑا ہوجاتاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جتنے بھی بحران یکے بعد دیگرے آرہے ہیں وہ ایک ہی جہت میں ، ایک ہی نوعیت کے نظر آتے ہیں۔حکومتوں اورتنظیموں کے درمیان کشمکش برپا ہے۔ قدیم صورتحال کو تبدیل کرنے یا تبدیلیوں کے آگے بند باندھنے والے اقدامات ادھر اور ادھر سے کئے جارہے ہیں۔ اپنے یہاں تبدیلیوں کی تحریک چلانے والے حکومتوں کو ہدف بنایا جارہا ہے۔ سعودی عرب اس کی ایک مثال ہے ۔ تبدیلی بڑا مشکل کام ہے ۔ اس کے ذریعے جڑیں پکڑے ہوئے افکار ، رائج ثقافتوں اور بڑے بڑے ڈھانچوں کو اکھاڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔اس کی مزاحمت پوری قوت سے کی جارہی ہے۔ جمال خاشقجی زندہ ہوکر سامنے بھی آجائیں تب بھی وہ مردہ ہی رہیں گے ۔ انہوں نے ابلاغی جنگ کا آتش فشاں بھڑکانے کیلئے جو گولی چلائی تھی انہیں اسکا نتیجہ دیکھنے کو مل گیا ہے۔ جو لوگ ان دنوں ان کے مسئلے کی بابت شور ہنگامہ برپا کررہے ہیں، انہیں خاشقجی سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ان کا ہدف خاشقجی نہیں بلکہ ریاض ہے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ تحریکی تنظیموں کو ایک طرف کرنا یا ان پر حرف تنسیخ پھیردینا بڑا آسان کام ہے اب انہیں اس عمل کے دشوار ہونے کا ادراک اور احساس ہوگا۔وجہ یہ ہے کہ یہ تنظیمیں نہ صرف یہ کہ موجود ہیںبلکہ پوری طاقت کے ساتھ اپنی جڑیں بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی سے خطے میں انہیں ایک بار پھر رواج ملے گا۔ مثال کے طور پر الاخوان المسلمون تحریک کے وفاداروں کو لے لیجئے۔ ان میں سے بعض فرار ہوکر ترکی اور قطر چلے گئے ہیں اور یہ لوگ امریکہ اور یورپی ممالک میں اپنا اثرو نفوذ پھیلانے اور پھیلے ہوئے اثرونفوذ سے فائدہ اٹھانے کا کام کررہے ہیں۔ مصر اور خلیجی ممالک میں جزوی طور پر معطل ہوجانے کے بعد وہ اس راستے پر گامزن ہوئے ہیں۔ تیونس اور مراکش میں بھی ان کا دائرہ تنگ کیا گیا یہ بھی یورپ اور امریکہ کا رخ کرنے کا اہم محرک ہے۔ بعض اخوانی انڈر گراؤنڈ کام کرنے لگے ہیں۔ فکری اسکولوں اور تنظیموں کی باقیات تنظیم نو میں لگی ہوئی ہے۔ عرب بہار کے تغیرات کے بعد کافی کچھ بدلا ہے۔ یہ تنظیمیں ختم نہیں ہونگی بلکہ پردے سے غائب ہونگی۔ یا جزوی طور پر اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی کوشش کرینگی۔ جمال خاشقجی خطے میں جاری جنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ خاشقجی کا معرکہ ایک طرح سے ابلاغی اور سیاسی معرکوں کے سلسلے کی کڑی ہے۔ ہر ایک خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بحران سے اپنے قضیے کو پانی دے رہا ہے۔ خاشقجی سے ہمدردی کا ڈھونگ رچنے والے عرب حکومتوں خصوصاً سعودی حکومت کو بدی کی حکومت ثابت کرنے کے درپے ہیں۔سعودی عرب بنیادی ہدف اسلئے ہے کیونکہ اس نے داخلی اصلاحات کے حوالے سے زیادہ جرأتمندانہ اقدامات کئے ہیں۔قطر اور ترکی کے ذرائع ابلاغ خاشقجی کو زندہ ہوتے ہوئے مارچکے ہیں۔ یہ بین الاقوامی جرم ہے۔ ان کے قضیے کو سعودی عرب کیخلاف بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ان کا مقصد سعودی عرب میں تبدیلی کے عمل کو کسی بھی قیمت پر روکنا ہے۔