Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ انجانی شخصیت کون تھی

***صلاح الدین حیدر ۔بیوروچیف***
اس سال جولائی میں ہونیو الے پارلیمانی انتخابات نے جس کی شفافیت پر ابھی تک بحث و تنقید جاری ہے،  اب ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے، جو کوئی سیاسی بھونچال کا پیش خیمہ نہ ثابت ہوجائے۔ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہونے کے ناتے انتخابات کے تمام تر مراحل کاخود ذمہ دار ہوتاہے۔اس کا کہنا ہے کہ اسکے افسرانِ بالا نے نادرا کی بنائی ہوئی مشین جسے عرف عام میں رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (RTS) یعنی پولنگ بوتھ سے ریٹرننگ آفیسر کو نتائج کی ترسیل کا واحد ذریعہ بنانے پر کمیشن کو مجبور کیا گیا تھا، سے سارا فساد پھیلاہے۔ کمیشن کے مطابق ایک تہلکہ آمیز بات سامنے آئی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ 25جولائی کی رات کو تقریباً12بجے کمیشن میں کسی انجانی شخصیت کا ٹیلی فون ملا جس میں نتائج کی ترسیل روکنے کا حکم صادر فرمایا گیا تھا۔
کمیشن نے اس کال کو ایک یو ایس بی ( ایک چھوٹاموٹا آلہ جسے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ میںداخل کرکے اس سے بآسانی تمام مواد حاصل کیا جاسکتاہے)میں ریکارڈ کرلیا ہے۔  اسکے ساتھ ایک آڈیو ٹیپ بھی ہے جسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی جس کی سربراہی سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کررہے تھے  نے بھی دیکھا۔وہ یو ایس بی یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا چھوٹا سا آلہ کمیشن نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف آئی اے کو فراہم کردیا ہے تاکہ وہ پوری طرح سے تفتیش کرسکے کہ آخر ایسی ٹیلی فون کال کس نے کی ،کہاں سے کی اور اس کا مطلب اور مقصد کیا  ؒؒتھا۔ ایک خط کے ذریعے کمیشن نے  ایف آئی سے یہ درخواست کی کہ  رپورٹ کا فرانزک یعنی سائنسی طور پر تفصیلی تجزیہ لے کر جس قدر معلومات حاصل کی جاسکیں، وہ کمیشن کوپیش کردی جائے۔
یہ ٹیلی فون کال کس کی تھی، کیوں آئی ، کیوں نتائج روکنے کا حکم دیا اَب ایک معمہ بن گیا ہے۔اسکے کیا نتائج ہوں گے۔ویسے بھی انتخابات کے نتائج کو پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے اب تک تسلیم نہیں کیا لیکن پیپلز پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو نے یہ کہہ کر وہ پارلیمان کے بائیکاٹ کے حق میں نہیں اور قومی اسمبلی میں بیٹھیں گے، جا کر حلف وفاداری اٹھایاجس کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن اور دوسرے کئی ایک سیاست دانوںکو  زک پہنچی۔ وہ اپنا سا منہ لے کر خاموش ہوگئے، لیکن اب بھی اپوزیشن متحرک ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے۔تحریک انصاف کی حکومت پر تابڑ توڑ حملے ہورہے ہیں۔بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی کی رکنیت تو قبول کرلی لیکن اپنی پہلی ہی تقریرمیں عمران خان کومخاطب ہوتے ہوئے وزیر اعظم کی بجائے سلیکٹ یا ارادتاً چنے گئے وزیر اعظم کے خطاب سے نوازا۔ ان کے یہ الفاظ اب پی پی پی اور ن لیگ کے لوگوں کا تکیہ کلام بن چکے ہیں۔بظاہر تو عمران کواس کی ذرا بھی پروا نظر نہیں آتی لیکن مستقبل میں اس  کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ 
کمیشن کا کہنا ہے کہ اسے جدید آلات استعمال کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ نادرا نے  جو کہ ہر پاکستانی کا تفصیلی ریکارڈ ہی نہیں رکھتی بلکہ اس کا پاسپورٹ ، قومی شناختی کارڈ اور دوسرے اہم کاغذات جاری کرتی ہے، آر ٹی ایس کے بارے میں کمیشن کی طرف سے لگائے گئے الزام کو نہ صرف سختی سے رد کردیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اس نے RTSمشین کو کئی بار ٹیسٹ کرکے الیکشن کمیشن کے حوالے کیا تھا،اس میں کوئی خرابی نہیں تھی۔الیکشن کمیشن نے خود ہی رزلٹ کو روک کر نتائج کا   اعلان کرنے میں ڈھائی سے 3گھنٹے کی دیر کردی جس کی وجہ سے ملک میں انتشار پیدا ہوا اور انتخابات کے نتائج کی شفافیت پر منفی اثرات مرتب ہوگئے۔ کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے آج تک فرانزک رپورٹ پیش نہیں کی۔کمیشن کے2 اعلیٰ افسران جن میں ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن ٹیکنالوجی خضر عزیز نے بھی RTS لگانے کی مخالفت کی تھی۔کمیشن کو آج بھی’’ آئی ووٹنگ‘‘ جو کہ بیرونی ممالک میں رہنے و الے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بارے میں ہے، پر تحفظات ہیں، جس کا اچھی طرح دیکھ بھال کر نفاذ کیا جائے۔ کمیشن نے بتایا کہ پارلیمانی قائمہ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر عارف علوی جوکہ آج کل صدر مملکت ہیں، نے 19جولائی 2017کے اجلاس میں قرارداد منظور کرواکے جلد بازی سے کام لیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رپورٹ کس طرح کی آتی ہے، کسی پر الزام دھرا جاتاہے یانہیں، وہ شخص کون تھا جس نے نتائج روکنے کا حکم دیا تھا اور ان تمام باتوں کا ملک کے سیاسی نقشے پر کیا اثر پڑے گا…یہ ساری باتیں اہم ہیں۔ 
 

شیئر: