عبدا للہ بن بجاد العتیبی۔۔۔الشرق الاوسط
جمال خاشقجی سعودی شہری ہیں ، پتہ نہیں کہاںہیں؟انہیں کس نے لاپتہ کیا۔ ؟ وہ کہاں اور کیسے لاپتہ ہوگئے؟
یہ بیحد اہم سوالات ہیں ، ہر کس و ناکس کی زبان پر ہیں۔سارے کے سارے سوالات بجا ہیں۔ بعض کے جواب دوٹو ک شکل میں سامنے آچکے ہیں، دیگر سوالات کے جواب مشکل ہیںالبتہ ان پر تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔
شروعات میں یہ عرض کرونگا کہ جمال خاشقجی سعودی عرب سے باہر گئے۔ انہوں نے جو سیاسی لائن اختیار کی وہ مملکت کے ہم آہنگ نہیں تھی البتہ واشنگٹن میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان کے بقول وہ سعودی عہدیداروں سے رابطے میں رہے۔ خاشقجی نے واشنگٹن میں قیام کے دوران سعودی سفارتخانے آنے جانے کے سلسلہ برقرار رکھا۔ وہ صحیح معنوں میں سیاسی مخالف نہیں مانے جاتے تھے۔ سعودی عرب اپنے کسی بھی شہری کی طرح ان کا بھی دفاع کرتا رہا ہے اور ان کی تلاش کی مملکت کو فکر ہے۔
انجانے لوگوں کیلئے خاشقجی کی حیثیت ایک صحافی کی ہے۔ دو مرتبہ ایڈیٹر انچیف بنے۔ اس منصب سے محروم ہوئے۔ انہوں نے ایک نیوز چینل کا انتظام سنبھالا، افتتاح کے چند گھنٹے بعد ہی اسے بند کردیا گیا، ایسا اس لئے ہوا کہ خاشقجی زمینی حقائق کا ادراک نہیں کرسکے تھے۔وہ معاشروں کی نزاکتوں کا گہرا شعور نہیں رکھتے تھے۔ ’’عرب بہار ‘‘کے زمانے میں انہیں ایسا لگا کہ وہ سعودی عرب اور مصر کے الاخوان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرسکتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ عرب بہار کے مکمل طور پر ناکام ہوجانے کے بعد وہ ان گنتی کے چند لوگوں میں سے ایک تھے جو عرب بہار کو کامیاب بنانے کیلئے بضدتھے۔
سوال یہ ہے کہ جمال خاشقجی کے ساتھ کیاہوا۔ان کو لاپتہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟۔ حقیقت حال کیا ہے؟ یہ 3 سوال ایسے ہیں جن کا رسمی جواب ابھی تک سامنے نہیں آیاالبتہ منظر نامے کو سمجھ کر حالات کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک ان کے امن و امان کی ذمہ داری کا معاملہ ہے تو ترک حکومت اس کیلئے جواب دہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ترکی میں لاپتہ ہوئے جہاں بین الاقوامی خبررساں ادارے مشکوک سرگرمیوں کے حوالے سے گزشتہ چندبرسوں کے دوران معروف رہے ہیں۔ مقامی اور بین الاقوامی طرح طرح کی مافیا وہاں سرگرم ہیں۔ کئی لوگوں کے وہاں قتل ہوئے، کئی برس سے وہاں دہشتگرد تنظیمیں مصروف عمل ہیں۔ داعش سے لیکر النصرہ محاذ تک کے رضاکار وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہاں منظم اوروسیع پیمانے پر مختلف تنظیموں کیلئے لاجسٹک سرگرمیاں ریکارڈ پر آتی رہی ہیں۔
قطر سعودی عرب، خلیج اور دیگر عرب ممالک سے دشمنی 2عشروں سے کررہا ہے۔ قطری حکمراں سنی اور شیعہ دونوں فرقوں کے دہشتگردوں کے باقاعدہ حلیف ہیں۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے الاخوان المسلمون اور دہشتگردی کی براہ راست سرپرستی کرنیوالے متعدد قطری عہدیداروں کودہشتگرد قراردیکر انہیںمطلوبین کی فہرست میں شامل کرکے قطر کے بائیکاٹ کا تاریخی فیصلہ کررکھا ہے۔ قطر کو بائیکاٹ کے بعد زبردست نقصان ہوا تاہم وہ اندر ہی اندر چٹان میں شگاف پیدا کرنے ، سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی رائے تبدیل کرنے کیلئے کوشاں رہا مگر اس حوالے سے اسے نہ مملکت کے اندر کامیابی ملی اور نہ خلیجی ممالک میں اس کی مہم کامیاب ہوئی۔ اسے مصر ، بحرین ، سعودی عرب، امارات، شام ، لبنان، تمام ممالک میں منہ کی کھانی پڑی۔ اسے ایرانی مہم اور بنیاد پرستوں کے منصوبوں میں سے کسی کی بھی جانبداری کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔
خاشقجی کا مسئلہ پیدا ہوتے ہی قطری میڈیا نے زبردست تشہیری مہم شروع کردی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قطری میڈیا کو یہ کیسے علم ہوگیا کہ خاشقجی کو اغوا کرلیا گیا۔ ان پر جبر و تشدد کیا گیا اور انہیں قتل کردیا گیا؟قطری میڈیا کے اناؤنسر اور مشاہیر نے لمحوں میں اس حوالے سے دسیوںکہانیاں اور قصے کیونکر ناظرین کو پیش کردیئے۔ عالمی خبر رساں اداروں اورا خبارات کو معلومات کا سیل رواں کیسے مہیا کردیا گیا؟ ایک اور اندوہناک سوال ہے وہ یہ کہ سعودی عرب اور اس کے بڑے اتحادیوں ، مثال کے طور پر امارات کیلئے مغربی میڈیا پر اثرانداز ہونے کا طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ یہ پورا میدان خالی پڑا ہوا ہے اور اس سے صرف اور صرف قطری میڈیا فائدہ اٹھا رہاہے۔ آخر میں ہماری آرزو یہ ہے کہ خاشقجی کا بحران مثبت شکل میں انجام پذیر ہو اور سعودی ترکی مشترکہ تحقیقاتی کمیشن صحیح جہت میں کام کرکے حقیقی نتائج منظر عام پر لائے۔