تھرپارکر میں بچوں کی بڑھتی اموات
اتوار 21 اکتوبر 2018 3:00
کراچی(صلاح الدین حیدر) تھر پارکرمیں دعوے تو بہت کئے گئے کہ وہاں پانی پہنچا دیا گیا۔ نئی پائپ لائن ڈال دی گئی ہے۔ عورتوں کے لئے بھی صحت مند خوراک کا بندوبست کردیا گیا ہے تاکہ آنے والی نئی نسل کو موت کے منہ میںجانے سے بچایا جاسکے۔ حقائق ابھی تک تلخ ہیں ، بلکہ اس سے بھی بدتر۔سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے خود ہی اعتراف کیا کہ اس سال نوزائیدہ بچوں کی اموات باوجود تمام تدبیروں کے پچھلے پانچ سالوںسے زیادہ ہی رہی۔ اگر پچھلے چار سالوں کا جائزہ لیاجائے تو موجودہ سال 505 بچے موت کے منہ میں گئے۔ 2017 میں یہ تعداد450 تھی، 2016 میں479 اور 2015 میں 398مستقل اضافہ حکومت وقت کے لئے اور انسانیت کے لئے کھلا چیلنج ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ دوائیں، اور صاف پانی وہاں پہنچانا جاں جوکھوں کا کام ہے، تو پھر پیپلز پارٹی جو پچھلے دس سال سے سندھ میں برسراقتدار ہے، اس نے کونسے اقدامات کئے جس پر انسانیت فخر کرے۔ پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو نے بجا طور پر صوبائی حکومت کے وزراءکو تنبیہ کی کہ کام کرو، ہاتھ پر ہاتھ دھرے مت بیٹھے رہو، ایسے کام نہیں چلے گا اور جو اپنے فرائض میں کوتاہی کرے گا ۔وہ حکومت میں نہیں رہ سکتا، لیکن جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو وہاں کون کسی کی سنتا ہے، لوگ، وزرا اور دوسرے اہم اہلکار بس پیسہ بنانے کی مشین کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بیک وقت کئی توجیہات گنوا دیں۔ حالیہ دوروں میںپھیپھڑوں کی بیماری، گھاس پھوس پر گزارا، صحت کی خرابی اور نہجانے کیا کیا، لیکن سوال تو یہی ہے کہ حکومت کا کام کیا ہے۔ کیا وزرا ءایک سے زیادہ، لمبی چوڑی ، پر تعیش گاڑیوں کو فوقیت دیتے ہیں، رہائش کے لئے محلات، رقص و سرورکی محفلوں پر ہی بھروسہ ہے، یا خلق خدا کا بھی کچھ احساس ہے۔ابھی ایک وزیر جام شورو کو نیب نے رشوت لینے کے الزام کے ثبوت پانے پر اس کے گھر پر چھاپہ مارا بعدمیں اسے ذیلی عدالت نے گرفتاری سے قابل ضمانت پر رہا کردیا۔ یہ بات تو اب چیف جسٹس بھی تسلیم کرتے ہیں، بلکہ کھلے الفاظ میں شکوہ بھی کیا کہ نچلی سطح کی عدالتوں میں رشوت عام ہے، جس کی روک تھام ہائی کورٹ کرے۔ ان کی اپیل صدا با صحرا ثابت ہوئی۔ انہیں کہنے پڑا کہ میں ہار گیا ہوں،کس قدر شرم کی بات ہے۔تھرپارکر ضلع کئی ایک تحصیلوں پر مشتمل ہے، مٹھی، ننگرپارکر،چھور،عمرکوٹ، جہاںر استے تک صحیح نہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ چیف سیکرٹری کو ہدایات دیں کہ علاقے میں فیملی پلاننگ کا پروگرام شروع کیا جائے ، تو یہ محض دکھا وا ہوگا۔اصل چیز نیک نیتی ہے، کام کرنے کی دھن، جو کہ سندھ کے سرکاری افسران اور وزراء میں شاذونادر ہی پائی جاتی ہے۔ بلّی کے گلے میں گھنٹی پھر کون باندھے؟