روای چین ہی چین لکھ رہا ہے، لکھے بھی کیوں نہ بھلا؟ ماسوائے ایک معروف انگریزی روزنامہ، تمام اخبارات پر فل پیج خبر نما اشتہار چھپا۔ عبارت ایک سی، سرخی ایک سی، متن ایک سا۔ اور تو اور اب ن لیگ کو بالآخر سوشل میڈیا کے ذریعے بیانیہ بنانے کا خیال بھی آیا ہے۔ بھلے وقتوں میں جب نوجوان ماہرین ان پرانی سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا کی افادیت کا بتلایا کرتے تھے تو کئی نامور سیاستدان ایسے مشورے تحقیر آمیز انداز میں جھٹک کر کہا کرتے تھے کہ ان نوجوانوں کو حلقے کی سیاست کا رتی برابر علم نہیں ہوتا، انہیں صرف سوشل میڈیا نظر آتا ہے جو چند بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔
2018 ہو یا 2024، دونوں بار چناؤ کے بیچ سوشل میڈیا کے بدلتے رنگوں نے گہرے نقوش چھوڑے، دیہات سے لے کر شہروں تک روایتی انداز سیاست کارگر ثابت نہ ہوسکا۔ اب بہرحال سوشل میڈیا کی افادیت کا ادراک ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ جناب وزیراعظم بھی ایکشن میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی تازہ جھلکی وہ مشہور زمانہ اشتہار ہے جس میں وزیر اعظم ایک ننھی بچی کے ساتھ فلمائی گئی گفتگو میں ملکی تعمیر و ترقی اور آگے بڑھنے کی بات کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
رچرڈ گرینل اور عمران خان۔۔۔! اجمل جامی کا کالمNode ID: 883199
-
المیہ سر زمینِ پاکستان کا ہے، اجمل جامی کا کالمNode ID: 883504
-
احتجاج، مذاکرات، خط اور اب گرینڈ الائنس؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 885491
یہاں اس اشتہار میں البتہ شبانہ روز محنت کا ذکر اس طرح نہ ہوا جو ان کی روایت ہوا کرتی تھی، مالک کُل کے بے پایاں فضل و کرم کا ذکر کرتے ہوئے جناب وزیراعظم اس عزم کا اعادہ کر رہے تھے کہ پاکستان اب اڑان کے لیے تیار ہے۔ کیا واقعی امن شانتی اور سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی اعشاریے اڑان کی نشاندہی کر ہے ہیں؟ مخالفین ایسے بے تکے سوالات ایویں اٹھا کر جی بہلاتے رہیں گے۔ اصل صورتحال تو گویا کچھ یوں ہے کہ؛
چرچا ہمارا عشق نے کیوں جا بہ جا کیا
دل اس کو دے دیا تو بھلا کیا برا کیا
الحمدللہ، 26 ویں آئینی ترمیم ہوچکی، آئینی بینچ بن چکا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی اور ٹرانفسر کا کام بھی مکمل ہوچکا۔ چیف جسٹس عامر فاروق اب سپریم کورٹ میں بیٹھا کریں گے، یہاں لاہور سے آنے والے ڈوگر صاحب کا راج ہوگا۔ سپریم کورٹ میں 17 کی بجائے ججز اب 34 تک ہو سکتے ہیں، تعداد بڑھ چکی، تمام صوبوں سے ماسوائے پنجاب جج صاحبان سپریم کورٹ لے جائے جا چکے، اب فل کورٹ بھی بلا لیا جائے تو سب اچھے کی رپورٹ ہی نشر ہوگی۔
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2025/screenshot_2025-02-13_002406.png)
آئی ایم ایف کا وفد دورہ پاکستان پر ہے، جناب چیف جسٹس سے ملاقات ہوئی، یقیناً باہمی دلچسپی کے امور پر ہی تبادلہ خیال ہوا ہو گا، ناقدین خوامخواہ ججز کی تعیناتی اور عدالتی نظام کے بارے میں نقائص اور تحفظات کو اجاگر کرتے پھر رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں سب اچھے کی اطلاع ہے۔ یہی ایک دائرہ ایسا تھا جس کے گرد لکیر بن نہ پا رہی تھی۔
رہ گیا میڈیا تو پیکا نے رہی سہی کسر پوری کر دی، ملک بھر میں صحافی سراپا احتجاج ہے لیکن قانون ان ایکشن ہے۔ شاید سرکار کو رحم آئے اور وہ کچھ نرمی کا سوچ لے۔ فی الحال تو آپ پیکا کی شق دو آر ون کا اگر مطالعہ کریں تو ہوش ٹھکانے لگ جاتے ہیں۔ یعنی نظریہ پاکستان سے لے کر ارکان مجلس شوری تک، اور تشدد بھڑکانے سے لے کر اس بابت احتمال ہونے تک، شک و شبہ اور الزام کسی صورت کسی وقت بھی کسی پر بھی نافذ ہوسکتا ہے اور اسے تین سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ بھگتنا ہوگا۔ شتر بے مہار میڈیا کا یہی علاج تھا۔ اس میڈیا پر نشر ہونے والے تجزیے یقینا اڑان کے رستے میں رکاوٹ بنتے ہوں گے۔ روایتی میڈیا کی ویسے ساکھ رہ ہی کیا گئی تھی جو اسے مزید رگڑا لگانا مقصود ہوا؟ بہر حال! حکمت والوں نے بہتر ہی سوچ رکھا ہوگا۔
ہاں! ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ خاصی گمراہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ ان کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس بتا رہا ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن بڑھی ہے۔ نیچے سے ستائیسویں نمبر پر ہیں، نمبرنگ میں ہمارے اوپر اوپر مالی اور لائبریا جیسے ملک آتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بھی پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہوگا۔
یہاں پنجاب میں ہارس اینڈ کیٹل شو کا کامیاب انعقاد ہوا ہے، رونقیں بحال ہوئی ہیں۔ تعمیر و ترقی کے فیتے کاٹے جا رہے ہیں، تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں ریڑھی بان اور ٹھیلے والے خوشی سے نڈھال ہو رہے ہیں۔ اور دشمن ہیں کہ مسلسل سراپا تنقید۔
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2025/screenshot_2025-02-13_002602.png)