Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیض احمد فیض، جنہوں نے ہر آمر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور ہر محکوم کا ساتھ دیا

فیض کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں جنہیں کسی ایک مضمون میں سمونا آسان نہیں (فوٹو: اے ایف پی)
یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب انڈیا کے طول و عرض میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج جاری تھا تو کانپور کے ممتاز ادارے آئی آئی ٹی کے طلبا اُس وقت مشکل میں پھنس گئے جب انہوں نے اپنے احتجاجی مظاہرے میں اُردو کے بے مثل شاعر فیض احمد فیض کی مشہورِ زمانہ نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پڑھی۔
یہ اِن طلبا کا آمرانہ رویوں کے خلاف جذبات کا اظہار تھا مگر ہوا یہ کہ اِن طلبا کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی کہ اس نظم میں ہندو مذہب کی توہین کی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فیض پر اُن کی زندگی میں بھی ایسے ہی الزامات لگتے رہے جن کی ایک طویل فہرست ہے مگر فیض اپنی شاعری کے ذریعے محکوم قوموں کا لہو گرماتے رہے۔
بات فیض کی ہو رہی ہو اور فلسطین کا ذکر نہ آئے تو یہ ممکن نہیں۔ وہ فلسطین جہاں حالیہ کچھ عرصہ میں ہزاروں معصوم بچے مار دیے گئے مگر کوئی شاعر یا فنکار ان بچوں کا نوحہ بیاں کرتا نظر نہیں آتا مگر یہ فیض تھے جنہوں نے فلسطینی بچوں کے لیے لوری لکھی جس کا کچھ حصہ پیشِ خدمت ہے:
’مت رو بچے
امی، ابا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رلوائیں گے
تو مسکائے گا تو شاید
سارے اک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے۔‘
فیض کی شخصیت کے تو یوں بہت سے پہلو ہیں جنہیں کسی ایک مضمون میں سمونا آسان نہیں مگر یہ شاعر چوں کہ آج ہی کے روز 13 فروری کو پیدا ہوا تھا تو اس دن کی مناسبت سے اُن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُن کی اُس مزاحمتی جدوجہد پر بات کی جائے جو وہ زندگی بھر کرتے رہے۔
ظاہر ہے انہوں نے اس کی قیمت بھی چکائی، کبھی پابندِ سلاسل رہے تو کبھی جلاوطن۔ چناںچہ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اُن کا نظریہ کیا تھا؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فیض بائیں بازو کے نظریات کے حامل تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ رُکن تھے مگر اس سے بڑھ کر وہ امن پسند سماج قائم کرنے کے خواہاں تھے، جمہوری قدروں کا فروغ  اور معاشرتی تفریق کا خاتمہ چاہتے تھے۔

امنِ عالم کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں فیض سرِفہرست تھے (فوٹو: نیشنل ہیرلڈ)

افسانہ نگار خواجہ احمد عباس اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’پاکستان سے خبر آئی کہ پرانے کانگریسی لیڈر میاں افتخارالدین کے اصرار پر فیض صاحب اُن کے انگریزی روزنامے ’پاکستان ٹائمز‘ اور اُن کے اُردو روزنامے ’امروز’ کے بیک وقت ایڈیٹر ہو گئے۔‘
ٹریڈ یونین کے ذریعے وہ مزدوروں کے بھی لیڈر تھے۔ اسی سلسلے میں حکومتِ پنجاب کی لیبر ایڈوائزری کمیٹی کے کنوینر تھے۔ پاکستان لیبر فیڈریشن کے نائب صدر تھے اور بین الاقوامی مزدور کانفرنس یعنی آئی ایل او کا سان فرانسسکو میں جو جلسہ ہوا تھا، اُس میں پاکستان کی طرف سے شریک ہوئے تھے۔ اس عرصہ میں امنِ عالم کی جو تحریک شروع ہی ہوئی تھی، اس کی ایگزیکٹو کمیٹی میں تھے۔
امنِ عالم کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں فیض سرِفہرست تھے، جس کا اظہار اُن کی اُس تقریر سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے سال 1962 میں لینن امن ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کی تھی۔ واضح رہے کہ انہوں نے یہ تقریر اُردو زبان میں کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’یوں تو ذہنی طور پر مجنوں اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی لوگ مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیز ہے اور سبھی تصور کر سکتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت ہیں، سفیدے کے درخت دلہن کا آنچل ہیں، بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ شاعر کا قلم ہیں، مصور کا موئے قلم اور آزادی ان سب صفات کی ضامن اور غلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اور حیوان میں تمیز کرتی ہے۔ یعنی شعور اور ذہانت، انصاف اور صداقت، وقار اور شجاعت، نیکی اور رواداری۔ اس لیے امن اور آزادی اور اس کے حصول اور تکمیل کے متعلق ہوشمند انسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔‘
فیض کا ایک حوالہ رومانی شاعری بھی ہے مگر اُس میں بھی مزاحمت کی چاشنی موجود ہے اور اُن کی مزاحمتی شاعری میں رومانی استعارے جابجا بکھرے نظر آتے ہیں۔
اُن کی شاعری کے محاسن پر پھر کبھی بات کریں گے اور اس وقت یہ دیکھیں گے کہ فیض اپنے اردگرد کی دنیا کے سیاسی مسائل اور بحرانوں کے حوالے سے کیا رائے رکھتے تھے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ فیض کا زندگی بھر جیل آنا جانا لگا رہا اور وہ جب جیل سے رہائی پاتے تو شاعری کا نیا مجموعہ تخلیق پا چکا ہوتا۔ 

ہندوستان تقسیم ہوا تو فیض نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا (فوٹو: وکی میڈیا)

فیض اور برطانوی راج کا ہندوستان
فیض کے شعری مجموعے ’نقشِ فریادی‘ میں شامل نظم ’کتے‘ ملاحظہ کیجیے،
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اِک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اُکتا کر مر جانے والے
یہ نظم آپ کو فیض کی شاعری کے مجموعی تاثر سے مختلف معلوم ہو گی اور کیوں نہ ہو کہ اس نظم کے ذریعے وہ برطانوی راج کے ہندوستان میں بسنے والی عوام کا حال بیان کر رہے ہیں۔
ادبی جریدے ’ماہِ نو‘ کے لیے ڈاکٹر جمیل جالبی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’فیض کی نظم ’کُتے‘ اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اردو میں بہت کم نظمیں ایسی ہیں جو اس نوعیت اور صنف میں ملتی ہیں اور جو ہیں، وہ اتنی خوش اسلوبی سے نہیں لکھی گئیں۔ ’کُتے‘ نیم سیاسی تمثیلہ کی مثال ہے جس میں مضمون و معانی کے خزانے بکھرے پڑے ہیں۔‘

ایلس فیض کے نام خط جو اُن دونوں کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کے مجموعے ’صلیبیں میرے دریچے میں‘ شامل ہے (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’سو برس کی ہندوستانی زندگی کے اخلاق و کردار، تہذیب و تمدن، پستی و ذلت اور احساسِ کمتری کو اس نظم میں اتنے مختصر اور اس قدر جامع الفاظ میں سمو دیا ہے کہ نظم ایک معجزہ معلوم ہوتی ہے۔‘
فیض اور تقسیمِ ہند
ہندوستان تقسیم ہوا تو فیض نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اس دور میں اپنی شہرۂ آفاق نظم ’صبحِ آزادی‘ لکھی جس کے باعث اُن کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا مگر اُن کی حب الوطنی پر بھی شک کیا جانے لگا  اور اُن پر ہر طرف سے تنقید شروع ہو گئی مگر کچھ عرصہ بعد ہی یہ نظم اس عہد کا ایک اہم شاعرانہ حوالہ قرار پائی:
’یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں‘
فیض کی یہ نظم ان امیدوں کے ٹوٹنے کی جانب اشارہ کرتی ہے جو انہوں نے نئے وطن کے قیام کے حوالے سے باندھ رکھی تھیں مگر تقسیم کے بعد کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تو تب فیض نے اپنے دلی جذبات کو شاعرانہ پیرائے میں بیان کیا۔
یہ نظم فیض نے دورانِ اسیری لکھی جب وہ راولپنڈی سازش کیس کا سامنا کر رہے تھے اور یہ اُن کے سال 1952 میں شائع ہونے والے مجموعے ’دستِ صبا‘ میں شامل ہے جس کی اشاعت کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے کیوں کہ اس کی اشاعت کے لیے راولپنڈی سازش کیس کے لیے قائم کیے گئے ٹربیونل سے اجازت حاصل کی گئی تھی۔
ایلس فیض کے نام خط جو اُن دونوں کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کے مجموعے ’صلیبیں میرے دریچے میں‘ شامل ہے، لکھتی ہیں کہ ’کیا ’دستِ صبا‘ کی لانچنگ کے سلسلے میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اُن کا اراکین ٹربیونل کا شکریہ ادا کرنا مناسب ہو گا؟ کیونکہ اگر وہ لوگ چاہتے تو دوران اسیری اور مقدمہ اس کتاب کی اشاعت پر پابندی بھی لگا سکتے تھے لیکن انہوں نے باقاعدگی سے اس کتاب کے چھپنے کی تحریری اجازت دی ہے اس لیے میرے خیال میں ہمیں اس بات کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔‘

بہت سے لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ فیض نے کشمیر کو نظرانداز کر دیا جو درست نہیں (فوٹو: میڈیم)

فلسطین اور افریقا کا نوحہ
فیض نے ہمیشہ جبر کا سامنا کر رہے لاکھوں لوگوں کے حق میں اور امن کے قیام کے لیے اپنی آواز بلند کی۔ یہ ویت نام پر مسلط کردہ امریکی جنگ ہو یا افریقا میں غلامی کا طوق اُتار پھینکنے کے لیے ہو رہی جدوجہد۔ اُن کی نظم ’کم بیک افریقا‘ اس کی عمدہ مثال ہے:
دھرتی دھڑک رہی ہے مرے ساتھ افریقا
دریا تھرک رہا ہے تو بن دے رہا ہے تال
میں افریقا ہوں دھار لیا میں نے تیرا روپ
میں تو ہوں میری چال ہے تیری ببر کی چال
آ جاؤ افریقا
آؤ ببر کی چال
آ جاؤ افریقا‘
یہ نظم اُن کے مجموعے ’زنداں نامہ‘ میں شامل ہے۔ انہوں نے یہ مجموعہ بھی دورانِ اسیری ہی تخلیق کیا جسے لاہور کے ’مکتبہٌ کاررواں‘ نے غالباً 1955 یا 1956 میں شائع کیا تھا۔ یوں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فیض نے وقتی طور پر فیشن بن جانے والے موضوعات کے بجائے آفاقی قدروں کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔
سید سجاد ظہر نے غالباً فیض کی شاعری میں موجود ہمہ گیری کو تسلیم کرتے ہوئے ہی ’زنداں نامہ‘ کے دیباچے میں یہ لکھا تھا کہ جہاں تک اُن اقدار کا تعلق ہے جن کو شاعر نے ان (نظموں) میں پیش کیا ہے یہ تو وہی ہیں جو اس زمانے میں تمام ترقی پسند انسانیت کی اقدار ہیں لیکن فیض نے ان کو اتنی خوبی سے اپنایا ہے کہ وہ نہ تو ہماری تہذیب و تمدن کی بہترین روایات سے الگ نظر آتی ہیں اور نہ شاعر کی انفرادیت، اس کا نرم، شیریں اور مترنم انداز کلام کہیں بھی ان سے جدا ہوتا ہے۔‘
فیض اور کشمیر کا تنازع
بہت سے لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ فیض نے دنیا کے اور بہت سے موضوعات پر تو قلم اُٹھایا مگر کشمیر کو نظرانداز کر دیا تو یہ کسی طور پر مناسب تنقید نہیں ہے اور اِس تاثر کو فیض نے بارہا اپنے مختلف انٹرویوز میں رَد کیا۔
معروف صحافی شمیم احمد شمیم نے فیض سے تفصیلی انٹرویو کیا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’مجھے محسوس ہوا کہ فیض کے دل میں کشمیر کا درد ہے۔ اُن کی زبان سے میں نے کشمیر کے متعلق ایسی بات سنی جو کسی دوسرے پاکستانی سے نہیں سنی۔ کہنے لگے: کشمیر کا بہترین حل یہ ہے کہ دونوں ممالک کشمیر کو الگ چھوڑ دیں اور کشمیر ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے دونوں ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے۔ بالآخر یہی ہو گا۔ لیکن بڑی خرابی کے بعد۔ آپ لوگوں کو دونوں طرف سے یہی مطالبہ کرنا چاہیے۔‘

اسرائیل کے بیروت پر حملے کے وقت فیض فلسطین میں ہی تھے (فوٹو: دی کوئنٹ)

فیض اور پاک بھارت جنگیں
انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1965 کی جنگ ہوئی تو حساس طبیعت رکھنے والے فیض نے اس پر نظم ’سپاہی کا مرثیہ‘ لکھی تو سقوطِ ڈھاکا کے المیے کو اپنی کئی نظموں کا موضوع بنایا جیسے کہ ’حذر کرو مرے تن سے‘، ’تہ بہ تہ دل کی کدورت‘، ’غبارِ خاطرِ محفل ٹھہر جائے‘، ’رفیقِ راہ تھی منزل‘، ’پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو‘ اور ’ڈھاکہ سے واپسی پر‘ وغیرہ شامل ہیں۔
اُن کی اس المیے پر دل گرفتگی کا اندازہ اس نظم ’حذر کرو مرے تن سے‘ لگایا جا سکتا ہے جس کے یہ دو اشعار دیکھیے:
حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ہے
حذر کرو کہ مرا تن وہ چوبِ صحرا ہے
جسے جلاؤ تو صحنِ چمن میں دہکیں گے
بجائے سرو و سمن میری ہڈیوں کے ببول
معروف نقاد پروفیسر فتح محمد ملک کتاب ’فیض: شاعری اور سیاست‘ میں لکھتے ہیں کہ ’یہ نظم فیض کی خوبصورت ترین نظموں میں سے ایک نظم ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کی اہم ترین سیاسی دستاویزات میں سے ایک دستاویز بھی ہے۔‘
فیض کی ڈھاکا سے واپسی پر لکھی نظم تو بہت مقبول ہوئی جس کا پہلا شعر کچھ یوں ہے:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
فیض اور فلسطین
فلسطینی بچوں کے لیے لکھی فیض کی لوری تو آپ پڑھ ہی چکے مگر انہوں نے فلسطین کے محکوم عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ترانا بھی لکھا جس کے کچھ اشعار دیکھیے:
’ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
کیا خوف ز یلغار اعدا
ہے سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف ز یورش جیش قضا
صف بستہ ہیں ارواح الشہدا
ڈر کاہے کا‘
اسرائیل کے بیروت پر حملے کے وقت فیض فلسطین میں ہی تھے اور پی ایل او کے  صدر یاسر عرفات کے اشتراک سے ایک رسالہ ’لوٹس‘ نکالتے تھے جس کے مدیرِاعلیٰ بھی رہے اور یوں انہوں نے فلسطینیوں کے شانہ بشانہ اُن کی جدوجہد میں حصہ لیا۔

ایران میں بادشاہت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں سے فیض کو خاص رغبت تھی (فوٹو: دی کوئنٹ)

فیض کے انقلابی افکار کو سمجھنے کے لیے اُن کی نثر سے بھی رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے مضامین کے مجموعے ’میزان‘ میں اپنی فکر کو کچھ یوں بیاں کرتے ہیں کہ ’انقلابی شاعر پر حسن و عشق یا مے و جام حرام نہیں، اور اس پر یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ انقلابی مضامین کے علاوہ دوسرے تجربات اور دوسری وارداتوں کا ذکر نہ کرے۔
فیض اور انقلابِ ایران
فیض کی مشہورِ زمانہ نظم
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
آمریت کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس نظم کے حوالے سے کینیڈا میں مقیم ادیب اشفاق حسین کتاب ’فیض کی محبت میں‘ میں لکھتے ہیں کہ ‘یہ وہ واحد نظم ہے جو اپنے قیامِ امریکا کے دوران جنوری 1979 میں فیض نے انقلابِ ایران کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھی تھی۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نظم کا عنوان ’وَّیَبقٰی وَجہُ رَبِّک‘ ہے جو قرآن کی ایک آیت سے لیا گیا ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک اس حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’اشتراکی انسان دوستی کی منزل سے اسلامی انسان دوستی کی منزل تک کا یہ سفر ہنوز فیض شناسوں کی توجہ کا منتظر ہے- ہمارے مارکسی اور سیکولر دانشوروں نے تو اس نظم کا اصل عنوان ہی بدل کر رکھ دیا ہے- وہ اس عہد آفریں نظم کو ہمیشہ اُس کے اصل عنوان وَّیَبقٰی وَجہُ رَبِّک کی بجائے ’ہم دیکھیں گے‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں- خود فیض نے ایران کے اسلامی انقلاب کو اِس نظم کا سرچشمۂ فیضان قرار دیا تھا-‘
یہ پیشِ نظر رہے کہ ایران میں بادشاہت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں سے فیض کو خاص رغبت تھی جس کا اظہار انہوں نے سال 1953 میں جیل میں رہ کر دل میں اُتر جانے والی نظم ’ایرانی طلبہ کے نام‘میں بھی کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایرانی وزیراعظم مصدق کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا۔
مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر آغا ناصر لکھتے ہیں کہ ’فیض صاحب سے ایک شاعر صحافی مرحوم حسن رضا نے انٹرویو کرتے ہوئے دریافت کیا تھا کہ ایرانی انقلاب کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ فیض صاحب نے جواب دیا تھا کہ ’یہ اپنی قسم کا بڑا انقلاب ہے- انقلابِ فرانس کے بعد اس قسم کا انقلاب دنیا میں نہیں آیا- روس، چین، ویت نام وغیرہ کے انقلابوں میں طرفین کی فوجوں کے درمیان جنگ تھی- ایران میں براہِ راست عوام کی فوج اور حکومتی اداروں سے لڑائی ہوئی ہے- یہاں پر عوام نے فوج کو ہرایا ہے۔‘

ملک میں جنرل ضیا نے مارشل لگایا تو فیض نے ’خورشید محشر کا لہو‘ کے نام سے ایک نظم لکھی (فوٹو: اے ایف پی)

ایتھل اور جولیس روزن برگ کی المناک موت
ایتھل اور جولیس ایک امریکی جوڑا تھا جنہیں اس لیے موت کی سزا دی گئی کیوں کہ وہ کمیونسٹ تھے۔ اُن دنوں فیض کو منٹمگری جیل میں اس جوڑے کے درمیان ہونے والی خط و کتاب پر مشتمل کتاب کسی طرح ملی تو وہ بے چین ہو گئے اور انہوں نے تب اپنی شہرۂ آفاق نظم لکھی، ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔‘
انہوں نے اس بارے میں ایلس کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ ’میں نے روزن برگ جوڑے کے خطوط ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے۔ اگرچہ بار بار دل بہت زیادہ بھر آیا تو کتاب ہاتھ سے رکھنی پڑی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے الفاظ کا سوز اور ان کی عظمت اسی ادیب کو نصیب ہو سکتی ہے جس کی مرگ و حیات ایسی ہی عظیم اور درد انگیز ہو۔ ان کا اور ان کے بچوں کا خیال آتا ہے تو اپنی مصیبت کی بات کرنا (اگرچہ یہ مصیبت بھی کچھ کم نہیں) بے ہودہ پن معلوم ہوتا ہے۔‘
فیض اور آمریت
ملک میں جنرل ضیا نے مارشل لگایا تو فیض نے ’خورشید محشر کا لہو‘ کے نام سے ایک نظم لکھی جس میں اس دور کی روداد بیان کی۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ ساتھ سیاسی فکر کا بھی جا بجا اظہار ہے۔ لہجہ بہت دھیما ہے اور خیالات کو انہوں نے ہمیشہ کی طرح استعاروں اور علامتوں کے ذریعے بیان کیا ہے، اشعار دیکھیے:
صبا نے پھر درِ زنداں پہ آکے دستک دی
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے
ان دھمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فیض نے انقلابی اور مزاحمتی شاعری کو بھی رومان کا ایسا پیراہن پہنایا جس کی اُردو ادب میں کوئی مثال تلاش کرنا مشکل ہے کیوں کہ اُن کے ہم عصر شاعر اپنے نظریات کا اظہار بہت بلند آہنگ انداز میں کرتے رہے مگر وہ بڑی سے بڑی بات بھی کبھی استعارات تو کبھی رومانی انداز اختیار کرتے ہوئے کہہ جاتے جیسے کہ
’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘

فیض ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد جب 20 نومبر 1984 کو چل بسے (فوٹو: وکی پیڈیا)

معروف نقاد ڈاکٹر انور سدید کتاب ’اُردو ادب کی تحریکیں‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ فیض کی منفرد عطا یہ ہے کہ انہوں نے لفظ کے گرد نیا احساسی دائرہ مرتب کیا اور اسے سیاست آشنا بنا دیا۔ فیض نے نہ صرف نئے استعارے تخلیق کیے بلکہ قدیم شعرا کے مستعمل الفاظ کو بھی نئی تابندگی عطا کی اور ایسی تراکیب وضع کیں جن پر ساختۂ فیض کی مہر ثبت ہے۔‘
فیض ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد جب 20 نومبر 1984 کو چل بسے تو یہ اُردو ادب کے لیے ایک عظیم سانحہ تھا جس پر اشفاق احمد بے اختیار کہہ اُٹھے کہ ’یہ شاعری کی موت ہے۔‘
منیر نیازی نے جریدے ’روحِ ادب‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ فیض صاحب پچھلے چند برسوں سے قسطوں میں مر رہے تھے۔ بیروت میں فلسطینی عوام کے قتلِ عام نے، جن کے حقوق کے لیے لڑنا، ان کی زندگی کا اہم مشن تھا، انہیں رنج و غم سے نڈھال کر رکھا تھا۔
’خود اپنے وطن پاکستان میں جمہوری قدروں کی مسلسل پامالی نے بھی ان کے دل کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ شخص جو زندگی بھر انقلاب کی باتیں کرتا رہا اور دوسروں کو انقلاب کی دعوت دیتا رہا، وہ خود اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حالات سے اتنا مایوس ہو گیا تھا کہ اسے انقلاب کی باتیں محض خواب معلوم ہونے لگی تھیں۔‘
ن م راشد نے فیض کے پہلے مجموعۂ کلام کے بارے میں لکھا تھا کہ ’فیض کسی مرکزی نظریے کا شاعر نہیں، صرف احساسات کا شاعر ہے۔‘
وہ اُس وقت غالباً درست تھے مگر آنے والے وقت میں فیض نے یہ ثابت کیا کہ وہ صرف ایک واضح فکر ہی نہیں رکھتے بلکہ انہوں نے اس کے لیے عملی جدوجہد بھی کی، پابندِ سلاسل رہے اور آمروں کے خلاف ہی اعلانِ جنگ نہیں کیا بلکہ محکوم عوام کے لیے بھی ہمیشہ آواز حق بلند کرتے رہے، یوں اُن کی پوری زیست مزاحمت سے عبارت ہے جو خالی نعروں پر مبنی نہیں بلکہ ان کی شاعری میں وہ چاشنی اور رچاؤ بھی موجود ہے جو انہیں ان کے ہم عصر شعرا سے ممتاز بناتا ہے۔

 

شیئر: