”اب یونہی جی رہے ہیں سبھی::ظاہری، بے رخی ،بے حسی“
جمعرات 25 اکتوبر 2018 3:00
اردو ٹوسٹماسٹرز کلب دمام کی خصوصی تعلیمی و ادبی نشست اور مشاعرہ
رپورٹ : اُمِ آدم /تصاویر: فرید حسین خان ۔دمام
اللہ تبارک و تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے حضرت انسان کو ایسی خوبیوں اور صلاحتوں سے سرفراز فرمایا جس کا انسانی عقل احاطہ تو کیا انہیں شمار کرنے سے بھی قاصر ہے ۔
جیسے ماں جنم کے بعد اپنے بچے کا صرف چہرہ دیکھ کر ساری تکلیفیں بھول جاتی ہے اور اس کی پرورش پر کمر کس لیتی ہے پھر اف بھی نہیں کرتی ، کچھ یہی وصف اردو ٹوسٹماسٹرز کلب میں بھی نمو پا گیا ہے۔ابھی جون کے بے مثال اور عالیشان دسویں اجلاس و تمثیلی مشاعرے کی کامیابی اور مبارک باد کے سلسلے جاری تھے کہ اردو ٹوسٹماسٹرز کلب نے کم وقت میں ایک اور مثالی شعری نشست سے عوام کی بھر پور توجہ حاصل کرلی۔
تعلیمی و شعری نشست کا آغاز ٹوسٹماسٹرز کے اصول کے مطابق مقررہ وقت پر ہوا۔منتظمِ انجمن فرحان فرید نے اجلاس کا آغاز حاضرین کے پرتپاک استقبال سے اور اردو ٹوسٹاسٹرز کلب کی صدر قدسیہ ندیم لالی کو اسٹیج پر مدعو کرتے ہوئے کیا۔صدرِ کلب قدسیہ ندیم لالی نے ٹوسٹماسٹرز فرٹینٹی سے شریک ، ڈویژن ڈائریکٹر نیاز قیصر ، ڈی ٹی ایم کلیم احمد ، ڈی ٹی ایم اظہر محمد ، سابق صدور اردو کلب ، سید منصور شاہ ، سابق ایریا ڈائریکٹر 25ضیاءصدیقی ، سردار شریف ، سید شیراز مہدی ضیاء، شہر الخبر و دمام کے عمائدین کو خوش آمدید کہتے ہوئے استقبالیہ پیش کیا ۔ قدسیہ ندیم لالی نے قومی زبان اردو کی اہمیت و افادیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک تحقیق کے مطابق پانچ سال کے بچے میں پانچ اور زیادہ سے زیادہ دس زبانیں ایک ساتھ سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ، جاپان اور ترکی ایسے ممالک میں سرفہرست ہیں جو اس اہمیت پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ مترجم ان ہی دو ممالک سے بین الاقوامی سطح پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے پر چھائی ثقافتی یلغار نے ہمیں انگریزی کی جانب یکسو کر دیا ہے اور ہم اپنی قومی و مادری زبان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ناظمِ اجلاس ، سینئر ٹوسٹماسٹر و سابق صدر اردو کلب و سابق ایریا ڈائریکٹر25 نے اجلاس کا باضابطہ آغاز کیا اور پیش نامے کی رو سے ذمہ داران ِ اجلاس کا تعارف پیش کیا۔ تعلیمی نشست میں ایک تقریر تھی جو ، چیمپیئن مقرر و سابق صدر اردو کلب دوم و سابق ایریا ڈائریکٹر ، کے ایف یو پی ایم ، سید منصور شاہ نے ایڈوانس کمیونیکشن سلور کا ساتواں منصوبہ پیش کیا جس کا عنوان تھا ، سقوطِ حیدرآباد ۔ان کی تقریر کے تجزیہ کار کہنہ مشق ٹوسٹماسٹر ، ڈی ٹی ایم ، کلیم احمد رہے ۔
سید منصور شاہ کی تقریر تاریخ کے جھروکوں سے کوتاہیوں اور غلط فیصلوں کی نشاندہی کرتی ہوئی، حال کی صورت حال کو جھنجوڑتی ہوئی ایک مثالی تقریر تھی ۔ تجزیہ کار جناب کلیم احمد نے اپنے تجزیے میں ان کی تقریر کو سراہتے ہوئے کامیاب منصوبہ پیش کرنے پر مبارک باد دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر اس تقریر کے طویل پس منظر کے بیان کو مختصر کر کے مقررہ تقریر کے وقت میں اپنا نظریہ و تجزیہ بھی شامل کیا جاتا تو ایک مکمل پیغام داخلی ، خارجی و نفسیاتی کیفیات سے مرصع ہوجاتا ۔
ناظمِ اجلاس نے وقت کی نبض پر مکمل گرفت رکھتے ہوئے شعری نشست کا آغاز کرتے ہوئے اردو کلب کی صدر محترمہ قدسیہ ندیم لالی کو شہ نشین پر شعری نشست کی صدارت کے لئے مدعو کیا۔ شہر الجبیل میں حالیہ سکونت اختیار کرنے والے نوجوان شاعر عامر نظر اس شعری نشست کے ” شاعر الشہر “ کے طور پر مسند نشین ہوئے ۔ باکمال شاعر اقبال اسلم بدر اور یوسف شیخ ، محمد سیلم حسرت ، اعجاز الحق ، محمد معراج الدین اور محمد انس الدین بھی براجمان ہوئے۔انس الدین اردو ٹوسٹماسٹرز کلب کے سابق نائب صد تعلیم ، چیمپیئن مقرر اور ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر ہیں۔بہت دلفریب انداز میں اپنا کلام سناتے ہیں۔نثری نظم کا نمونہ کلام حاضر:
٭٭محمد انس الدین:
اس محبت کا چرچہ نہیں ہوتا
جس محبت میں خرچہ نہیں ہوتا
سب سمجھتے ہیں یہ امتحان بڑا آسان ہے
انہیں کیا پتہ اس امتحان کا آسان پرچہ نہیں ہوتا
جس چہرے نے اپنی آنکھوں میں کاجل لگا رکھا ہے
اس چہرے نے اس عاشق کا نام پاگل رکھا ہے
جس کے ہر ستم کو ہم نے بادل بنا رکھا ہے
ہماری محبت کی انتہا دیکھو ہم نے اسکا نام غزل رکھا ہے
آج بھری محفل میں یہ اقرار کرنے والا ہوں
اپنی دلی خواہش کا اظہار کرنے والا ہوں
ہر امتحان ،آزمائش اور بندش کے لئے تیار ہوں
سن اے خوبصورت بلا میں تجھ سے پیار کرنے والا ہوں
محمد معراج الدین حالیہ مجلس عاملہ کے نائب صدر تعلیم نے جس عمدگی سے اپنی غزلیں پیش کیں اس نے محفل سماں باندھ دیا۔
٭٭محمد معراج الدین :
کیا یہی ہے مری زندگی
بے کسی، ان کہی، عارضی
اب یونہی جی رہے ہیں سبھی
ظاہری، بے رخی ،بے حسی
چاہتی ہے یہی دوستی
عاجزی ، سادگی، دل لگی
آپ کی مسکراہٹ لگے
صندلی ، ریشمی، شبنمی
منتری کی جو ہے پالیسی
دوغلے، دھاندلی، سرکشی
چاہتا ہے خدا ہم سے کیا
بندگی بندگی بندگی
اعجاز الحق ، اردو ٹوسٹماسٹرز کے میزبان شاعر کی حیثیت سے اس بزم میں شریک تھے ، دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شاعری منجھی ہوئی ترکیبات سے مرصع ہوتی جا رہی ہے ۔ اردو کلب میں ان کی شمولیت نے ان میں اظہار کے اعتماد کو نکھارنے میں ایک اہم کردار ادا کیاہے جس کا وہ خود بھی گاہے بہ گاہے اظہار کرتے ہیں۔ دیکھئے کس کمال سے جمالیاتی غزل پیش کی اور حاضرین محفل سے بھر پور داد حاصل کی :
٭٭اعجاز الحق:
میں کیا بتاو¿ں کتنے حسیں لگ رہے ہو تم
حیرت سے تک رہا ہے تمہیں ماہتاب بھی
ماتھے پہ تیرے نور کا ہالہ سا بن گیا
شرما رہا ہے دیکھ لو وہ آفتاب بھی
محمد سلیم حسرت ، سابق صدر اردو کلب مزاحیہ شاعری میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں اور کئی عالمی مشاعروںمیں اردو کلب کا نام روشن کر چکے ہیں ۔اپنے مخصوص انداز میں شعرکہتے ہیں:
٭٭محمد سلیم حسرت:
وطن اور ہم آشیاں چھوڑ آئے
محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
وہ مسکان بچوں کی معصوم ونمکیں
ارے وائے حسرت کہاں چھوڑ آئے
الجبیل سے خصوصی دعوت پر آئے ہوئے مہمان شاعر یوسف شیخ نے کچھ ماہ قبل شعر و سخن سے وابستگی اختیار کی البتہ ان کا شوق و ذوق و ولولہ اور شعر کی بُنت ان کی محنت اور شاعری سے محبت کا بین ثبوت ہے۔ کہتے ہیں :
٭٭ یوسف شیخ :
مرے رقیب سے کرتے ہو بات ہنس ہنس کر
ستم یہ مجھ پہ صنم کس طرح سے ڈھاتے ہو
اقبال اسلم بدر جن کوموروثی شاعر کہا جانے لگا ہے کیونکہ ان کے والدِ گرامی ایک معروف و نامور ہندوستانی شاعر ہیں اور باکمال بات یہ ہے کہ اقبال اسلم بدر کی شاعری میں اپنے والد کا ڈکشن کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ حالات حاضرہ پر اپنی مکمل گرفت رکھتے ہوئے آج کی بات بہت ذہانت و کمال سے شعر کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں ۔ان کا کلام پیش خدمت ہے :
٭٭اقبال اسلم بدر :
ہر بار دل لگی کا مزہ آپ جانئے
اک بار عاشقی کا مزہ ہم سے پوچھئے
اقبال سے خودی کا سبق پڑھ چکے ہیں آپ
بے وجہہ بے خودی کا مزہ ہم سے پوچھئے
عامر نظر شاعر الشہر کی حیثیت سے خصوصی دعوت پر اردو کلب کے مشاعرے میں شریک ہوئے ۔اپنی شناخت محض دو مشاعروں سے منوانے میں مکمل کامیاب رہے ۔ ان کا ایک شعری مجموعہ منظر عام پر آ چکا ہے ۔ ان کا تعلق ہندوستان کے صوبہ بہار سے ہے۔ زبان کی شائستگی وشستگی پر آپ کو مکمل دسترس حاصل ہے ۔غزل سرا ہوئے تو محفل کا رنگ ہی بدل گیا ۔ نمونہ کلام پیش ہے :
٭٭عامر نظر :
خوشی ملی تو مسافت کا غم بھلا بیٹھے
گو راہ زیست پہ یوں کتنے آبلے ہوئے تھے
وہ تیرگی کا لہو تھا کہ چاندنی کا سرور
سحر کے نام کئی ذائقے لکھے ہوئے تھے
قدسیہ ندیم لالی منطقہ شرقیہ کا ایک مستند نام ہیں ، اپنے صدارتی خطاب میںانہوں نے کہا کہ میرے اساتذہ نے مجھے لفظوں کے بھید سکھائے اور روزنامہ اردو نیوز نے مجھے وہ لفظ عوام تک پہنچانے کا ذریعہ عطا کیا ، صحافت کی باریکیاں سکھائیں ااور میرا مان بڑھایا ۔ اردو ٹوسٹماسٹرز کلب نے مجھے زندگی کونئے انداز سے دیکھنے کا طریقہ سکھایا اور ہر پل کی اہمیت ، تقسیم کرنے کا ہنر ایماندارانہ ، نظر و نظریہ اور زندگی سے پیار کرنا سکھایا۔ ان کا نمونہ کلام پیش ہے :
اگرچہ پھول اب مرجھا گیا ہے
مگر خوشبو بہت پھیلا گیا ہے
ہوا ہے آئینہ میرے لئے یوں
وہ مجھ سے ہی مجھے ملوا گیا ہے
کیا واپس نہ اس نے کیوں مرا دل؟
جو میرے سارے خط لوٹا گیا ہے
مقررہ وقت میں شعری نشست کے اختتام پر محفل میں کوئی فرد ایسا نہ تھا جو محفل برخاست کرنے پر آمادہ ہو۔ احباب کی پر زور فرمائش اور موسیقی سے شغف و وابستگی رکھنے والے کئی افراد محفل میں موجود ہوں تو پھر شعر و نغمہ ایک ساتھ جمع ہوہی جاتا ہے۔ضیاءالرحمٰن صدیقی جو محمد رفیع کے انداز میں گیت و نغمہ کے لئے منطقہ شرقیہ میں اپنی شناخت رکھتے ہیں ،انہوں ماضی کے جھروکوں سے کئی سدا بہار گیت سنا کر محفل کو نئی رونق بخشی ۔ سرفراز عالم ، اکرام الدین اور ثمن طارق نے بھی کئی جدید گیت سنا کر شائقینِ موسیقی سے خوب داد حاصل کی۔
تعلیمی و شعری نشست کے آخری مرحلے میں اردو ٹوسٹماسٹرز کلب کی جانب سے شرکائے ادبی نشست کو توصیفی اسناد پیش کی گئیں ۔
ناظمِ اجلاس ، ضیا الرحمن صدیقی نے حاضرین محفل کا شکریہ ادا کیا۔ اردو ٹوسٹماسٹرز کلب کی صدر قدسیہ ندیم لالی نے اراکینِ مجلس عاملہ ، اراکینِ اردو ٹوسٹماسٹرز کلب ، حاضرین محفل اور خصوصی شرکت پر سابق صدر سردار شریف ، سید منصور شاہ ، محمد سلیم حسرت ، سید شیراز مہدی ضیاء؟ ثمن طارق ، فریدحسین خان ، مسرت خان ، فرحان فرید ، فرقان فرید و سکینہ فرید کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اجلاس کے اختتام کا اعلان کیا۔