Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آبگینوں کا خیال رکھیں

خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کی تمنا ہے تو اپنے دل میں اس"آبگینے "کو محفوظ کرنا ہوگا ،نظروں میں احترام اور زبان پر مٹھاس لانی ہوگی
 
 * * * *ڈاکٹر بشری تسنیم۔شارجہ* * *
    دنیا جیسے جیسے ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے ہر کام ،ہر چیز میں تخصص یاا سپیشلائزیشن چاہتی ہے۔انسانی بدن کے ہر عضو کا  یا کسی اور فن میں ماہر ہونا اسپیشلسٹ کہلاتا ہے اور پھر ہر عضو کے مزید مرحلہ وار علم ہیں۔اسی طرح زندگی کا ہر کام ابتدا سے انجام تک تخصص کا مرہون منت ہے اور کسی بھی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنا یا انسانی بدن کا ماہر معالج بننا ایک قابل قدر بات ہے مگر بحیثیت ا نسان کے مرحلہ وار تعلق داری میں ماہر ہونا کمال درجہ کی قابل فخر بات ہے۔کسی بھی کام میں ماہر ہونے کیلئے ایک ایسے نمونے یا ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے جس کو سامنے رکھ کر مطلوبہ معیار تک پہنچا جا سکے اور اس کا تخصص کسی اعلیٰ درجے کی درسگاہ سے حاصل شدہ ہو اور اس کے علم، کام،پروجیکٹ یا مقالے کی نگرانی کسی بلند پایہ ہستی نے کی ہو۔
    ہم یہ جانتے ہیں کہ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر ہے اور گھر کا سربراہ مرد ہے اور مرد بحیثیت شوہر کے گھر کا پہلا ذمہ دار ہے، وہ راعی ہے جس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس کی جائے گی۔نمونے کا شوہر بننا ہی گھر اور معاشرے کی سدھار کا پہلا مرحلہ ہے۔ہم وہ خوش قسمت امت ہیں جس کو ایک کامل نمونہ، زندگی گزارنے کیلئے عطا کیا گیا ہے۔’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃالحسنہ‘‘۔
    ایک مرد کو اپنی زندگی میں معاشی، معاشرتی حالات کے مطابق شریک زندگی کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ دو جمع دو چار کا فارمولہ اس رشتے کی کامیابی کیلئے لاگو نہیں ہوتا۔ضروری نہیں کہ یہ اپنا انتخاب ہو ۔بعض اوقات محض حالات کی مجبوری کی بناء پہ مناکحت ہو جاتی ہے۔سمجھوتہ ہی کامیابی کیلئے کارگر نسخہ ہے۔بہر حال ہر مرد جب شوہر بنتا ہے تو اس کو ایک قابل تقلید شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مومنوں کیلئے اسوۂ کامل اتارا ،خود ان کو تعلیم دی، "انک لعلی خلق عظیم"کی سند عطاکی اور ہم جانتے ہیں کہ نبی کی زندگی میں جو عورتیں بحیثیت بیوی کے آئیں، وہ مختلف علاقوں سے مختلف حالات و واقعات سے تعلق رکھتی تھیں۔اگر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمر میں بڑی ہیں تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چھوٹی ہیں۔کوئی ہم عمر ہے، کوئی بیوہ ہے یا مطلقہ ہے، حسین ترین ہے تو معمولی شکل کی بھی ہے، دراز قد ہے تو چھوٹے قد کی بھی ہے۔ اگر کوئی معمولی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں تو کوئی سردار کی بیٹی بھی ہے، کوئی صحتمند ہے تو کوئی کمزور صحت کی مالک ہے۔اگر کوئی مزاج میں تیزی رکھتی ہے تو کسی کا بھولپن اس کی خوبی ہے ،کوئی کھانا پکانے میں ماہر ہے تو کوئی علم میں تخصص کا درجہ رکھتی ہے۔کسی سے اولاد ہوئی اور کسی سے نہیں ہوئی اور کوئی بیوہ ہے۔ اگر مطلقہ ہے تو اپنے بچے بھی ساتھ لے کر آئی۔غرض بحیثیت شوہر کے نبی کریم (زندگی کے باقی ہر معاملے کیساتھ ساتھ) مومن مردوں کیلئے کامل ترین نمونہ ہیں۔    جس عورت سے بھی مرد نکاح کریگاوہ امہات المومنینؓ میں سے کسی ایک کے ساتھ حالات میں یا معاملات میں مشابہت رکھنے والی ہوسکتی ہے۔دنیا کی ہر عورت بحیثیت بیوی کے ایک جیسے جذبات رکھتی ہے۔ ہر انسانی فرقہ " تشابھت قلوبھم"پہ پورا اترتا ہوتاہے ۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں بتاتی ہے کہ آپ سے ہر بیوی خوش تھی۔نبی کریم کا یہ فرمان کہ سب سے بہتر مومن (اعلیٰ گریڈ حاصل کرنے والا) وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کیلئے بہتر ہے اور اگر کسی نے یہ اعلیٰ گریڈ پانا ہو تو اس کیلئے ضروری ہے وہ نبی کریم کے اسوہ پرعمل کرے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہیں۔
    عموماً بیوی مادی اشیاء سے زیادہ اپنے نازک جذبات و احساسات کا خیال رکھنے والا شوہر ہی چاہتی ہے اور ایسا شوہر ہی اس کا محبوب بن سکتا ہے ۔آپ تصور کیجیے، ام المومنین ؓنے اپنے لئے رسول اللہ کے زبان مبارک سے "آبگینہ "کا لفظ سن کر کیسے دل میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر محسوس کیا ہوگا۔سبحان اللہ! اور یہی پیغام ہر مومن شوہر کیلئے ہے کہ نبی کریم نے بیوی کو "آبگینہ "سے تشبیہ دی تو آپ بھی اس لفظ کی سچائی، اس میں چھپی نزاکت اور خوبصورتی کو محسوس کریں جس طرح نبی اکرم نے محسوس کیا اور اظہار کیا۔یہ لفظ ہی ہوتے ہیں جو دل کی نگری کو برباد کرتے ہیں یا آباد کرتے ہیں۔ ان سے ہی دل شاد ہوتے ہیں یا ناشاد ہوتے ہیں۔جو مرد اپنی بیوی کے دل کو فتح نہ کر سکا وہ ساری دنیا بھی فتح کرلے تو ناکام ہے۔    وہ جو شادی شدہ ہیں اپنی بیوی کے ساتھ کم یا زیادہ مدت گزار چکے ہیں اور وہ نوجوان مسلم جو شریک زندگی کے خواب دیکھ رہے ہیں نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کے ازواج مطہراتؓ کے ساتھ نرمی کا برتاؤ ،لفظوں کا چناؤاور نازک احساسات و جذبات کے احترام کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھیں۔دل کی دھڑکن میں اس ارتعاش کو محسوس کریں جو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں محسوس ہوتا ہے ،دل میں اسوہ رسول سے تعلق کا ارتعاش پیدا ہو تو مومن جان لیتا ہے کہ:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم  بھی
    اگر پر سکون خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کی تمنا ہے تو اپنے دل میں اس"آبگینے "کو محفوظ کرنا ہوگا ،نظروں میں احترام اور زبان پر مٹھاس لانی ہوگی، عورت کی فطرت میں ڈھل جانے کی صلاحیت عطیۂ الٰہی ہے۔ اس فطرت کو رب کی رضا کے مطابق کیسے ڈھالنا ہے یہ"اقوام"کی صلاحیت کا امتحان ہے اور اس امتحان میں پورا اترنے کے لئے مکمل بھر پور تیاری کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
مزید پڑھیں:- - -  -مسجد میں عورتوں کی نماز ، مسئلہ کیا ہے؟

شیئر: