Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام اور مغرب ۔۔۔رنگا رنگی اور تکمیل باہم

عبداللہ فدعق۔الوطن

میرے کالم کا یہ عنوان حال ہی میں قاہرہ میں حرف بحرف نافذ کیا گیاجہاں 3روز تک 4محترم اداروں الازہر ، مجلس حکماء المسلمین،مرکز نظامی کنگوی اور الازہر لائبریری نے خصوصی بین الاقوامی سیمینار منعقد کیاتھا۔ اس موقع پر علمی نشستیں ہوئیں۔اسلام اور مغرب کے حوالے سے معاصر اسکالرز کی تیار کردہ تحریروں کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لیا گیا۔ انصاف پسندوں نے اعتراف کیا کہ اسلام کیلئے مغربی نظریات ایسے نہیں جنہیں نامانوس قراردیدیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ مغربی نظریات اور اسلام کے درمیان مختلف حوالوں سے فرق پایا جاتا ہے۔ تاہم یہ فرق ایسا نہیں جس سے اہل اسلام اور اہل مغرب کے درمیان افہام و تفہیم کا ماحول مکدر ہوتا۔ انتہاپسند عناصر ، جہادی اور دہشتگرد ، مغربی اقوام اور ان کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں کشیدگی برپا کرنے میں ادنیٰ فروگزاشت سے کام نہیں لیتے۔ کبھی یہ حرکت وہ دہشتگردی کے ذریعے کرتے ہیں ، کبھی وہ وظیفہ خواروں کی دہشتگردانہ سرگرمیوں کی تائید و حمایت کرکے یہ کارشر انجام دیتے ہیں۔ قومیت پرست سیاستداں اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر نقل مکانی اور بے روز گاری  کے مسائل اٹھانے اور اچھالنے لگتے ہیں۔ یورپی نظام میں کثیر ثقافتی ، کثیر مذہبی اور کثیر لسانی معاشرے کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مذکورہ ماحول برپا ہوجانے پر قومیت پسند کثیر ثقافتی معاشرے کے خلاف آوازیں بلند کرنے لگتے ہیں۔ اسلام کو انتہا پسندی اور تعصبات کے علمبردار مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔اس بات کا پرچا رشدت سے ہونے لگتا ہے کہ اسلام کے تئیں رواداری نہ برتی جائے ۔ تاریخ کی شہادت بیشک اس کے برعکس ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اسلام انتہاپسندی کا مخالف مذہب ہے۔
    ظالمانہ میڈیا اسلام پر دہشتگردی، انتہاپسندی اور شدت پسندی کی پھبتی کسنے کیلئے جو الزامات لگاتا ہے اور دعوے کو ثابت کرنے کیلئے جس قسم کے جذباتی شواہد پیش کرتا ہے میں اس کی تفصیلات میں جانا نہیں چاہونگا کیونکہ میری نظر میں اس سے زیادہ اہم یورپی ممالک میں اہل مغرب اور مسلم ممالک کے درمیان دراڑ کو پاٹنا اور تمام فریقوںکے تعلقات کو جدید خطوط پر استوار کرناہے۔ یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب اسلام اور اہل مغرب کے درمیان معاصر مسائل کی تشخیص کردی جائے۔ شیخ الازہر اور مجلس حکماء المسلمین کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب نے سیمینار سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’میں آج کے سیمینار سے خطاب کیلئے الفاظ و افکار کے انتخاب کی بابت غوروفکر کرتا رہا۔بالآخر میں نے خود کو پرانی باتیں دہرانے پر مجبور پایا۔ وجہ یہ ہے کہ سیمینار کے موضوع کے حوالے سے بہت سارے بیانات اور سفارشات جاری ہوچکی ہیں۔ مکالمہ بین المذاہب اور قدر مشترک پر اتفاق رائے کی ضرورت اجاگر کی جاچکی ہے۔ مشرق و مغرب کے حکماء کی قابل قدر مساعی کے باوجود راستہ اب بھی کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ مزید جدو جہد ضروری ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ زمینی حقیقت اور آرزوؤں کے گلدستے کے درمیان نامعقول قسم کا فرق موجود ہے۔ دراصل مکالمے کی راہ میں رکاوٹیں پائی جاتی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ رکاوٹوں کی نشاندہی ہو ، انہیں قابو کرنے کے طور طریقے متعین ہوں۔ اسی صورت میں گتھی سلجھ سکے گی۔ شیخ ازہر نے یہ بھی کہا کہ بھیانک دہشتگردانہ جرائم کے حوالے سے اسلام کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں پر تشدد اور درندگی کا الزام لگایا جارہا ہے جبکہ سیاہ دہشتگردی کا شکار مسلمان ہیں کوئی اور نہیں۔ اسباب پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ دہشتگردی کا ذمہ دار نہ اسلام ہے نہ آسمانی مذاہب ، بلکہ مذاہب ،اقدار ، اخلاق اورروایات کا سودا کرنے والے عالمی نظام اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سب کچھ نئے استعمار ، مکروہ نسل پرستی اور اسلحہ کے بازاروں کو چمکانے کیلئے ہورہا ہے۔
    شیخ از ہر نے جو کچھ کہا بجا و برحق ہے۔ وہ طویل عرصے سے مشرق و مغرب کے تعلق کو کامیاب بنانے کا مشن چلائے ہوئے ہیں۔ میری آرزو ہے کہ بنی نوع انساں کیلئے بہتر مستقبل کے متلاشی ذہن اور دماغ یہ بات مان لیں کہ قدر مشترک پر اتفاق اور ایک دوسرے کی خامیوں کے ازالے پر کمر بستہ ہونے کے سوا مسئلے کا کوئی حل نہیں۔

مزید پڑھیں:- - -  -مسئلہ فلسطین پر غیر متزلزل موقف

شیئر: