اسلام میں زیادتی کی سزا کیا ہے؟
تبدیلی ٔ افکار و اعمال کے نتیجہ میں صالح معاشرہ وجود میں آئے گا، یہ وہ حالات ہیں جن کی آج کمی محسوس کی جا رہی ہے
* * محمد آصف اقبال۔ نئی دہلی* *
چند سال قبل نئی دہلی میں ایک درد ناک واقعہ رونما ہوا جس میں ایک طالبہ کیساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی ۔پولیس نے وحشیانہ حرکت میں ملوث6 بدمعاشوں کو گرفتار کر لیا ۔ مخصوص واقعہ کی فاسٹ ٹریک عدالت نے ہر پہلوکو سمجھنے اور غور و فکر کے بعدفیصلہ سنایا ۔ فیصلہ وہی تھا جس کا مطالبہ متاثرہ کے والدین ، سماجی تنظیمیں اور ملک کی عوام چاہتی تھی یعنی سب کو موت کی سزا سنائی گئی۔
اس پورے واقعہ، فیصلہ اور حتی الامکان عمل درآمد کے باوجود سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا دیگر زیادتی کے قصورواروں کو اس سے کوئی سبق حاصل ہوگا؟ کیا یہ اور اس طرح کے فیصلوں سے زیادتی کے واقعات کی تعداد میں کمی آئے گی؟اور یہ سوال اس لئے اٹھتا ہے کہ آج ہم جس معاشرے کاحصہ ہیں وہاںہر آن ظلم و زیادتیوں کا بازار گرم ہے۔یہاں لوگوں کے بنیادی حقوق کھلے عام سلب کیے جاتے ہیں،خاندانی نظام منتشر ہوا چاہتا ہے، برائیوں کو اب برائی نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہ فیشن بن چکی ہیں۔ عفت و عزت کی زندگی گزارناایک عیب سمجھا جاتا ہے، ذمہ داریاں بوجھ سمجھی جانے لگی ہیں یہی وجہ ہے کہ خاندانی رشتہ اور وہ جذبات سرد پڑتے جا رہے ہیں جو ایک مستحکم معاشرے کی تشکیل میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ مقصدِ حیات عیش پرستی میں تبدیل ہو چکا ہے، مذہبی بنیادیں یا تو نہایت کمزور ہیںیا ہیں ہی نہیں ۔یہاں الحاد عام ہوا چاہتا ہے ، جدیدیت ایک خاص پس منظر پیش کی جانے لگی ہے اور آخرت کا تصور نا پختہ بنیاد وں پراستوار ہے۔یہ اور ان جیسے بے شمار مسائل ہیں جہاں عام انسان رہتا بستا اور زندگی گزارتا ہے اس کے باوجودیہاں برائی کو برائی کہتے ہوئے نہ صرف ڈر محسوس ہوتا ہے بلکہ نشاندہی کرنے والوں کو ڈرایا اور دھمکایا بھی جاتا ہے۔ان حالات میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ برائیوں کو روکنے کا ذریعہ کون بنے گا؟ حکومت ،مذہبی گروہ،سماجی خدمت گار،جدیدیت کے علمبردار،غیر حکومتی ادارے اور این جی اوز یا عام شہری؟ معاملہ یہ ہے کہ وہ تمام افراد اور حکومتی و غیر حکومتی ادارے جو برائیوں پر روک لگا سکتے ہیں، وہ خود برائی کو اس درجہ برائی تسلیم نہیں کرتے جو مطلوب ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ملزم جرم کر گزرتا ہے ، لوگ واقف ہو جاتے ہیں،اُس لمحہ ہماری آنکھیں کھلتی ہیں لیکن قبل از وقت نہ ہمارے لیے وہ برائی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی درجہ میں جرم۔
حالات کے پس منظر میں جب کبھی زیادتی کا واقعہ یا واقعات سامنے آتے ہیں تو کبھی معصوم تو کبھی شاطر دماغ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی زیادتی کے مجرمین کیلئے اسلامی قانون نافذ ہونا چاہیے لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچنے کی بھی زحمت کی کہ اسلامی قوانین میں زنا کی سزا سنگسار کیوں ہے؟کیا اسلامی قانون کی رو سے جو شخص بھی زنا کا مرتکب ہوگا وہ سنگسار ہی ہوگا گرچہ وہ تمام برائیاں ، ظلالتیں اور گمراہیاں جو زنا کا ذریعہ بنتی ہیں ایسے ہی جاری رہیں جس طرح آج بر صغیر میں عام ہیں؟کیا ان ذرائع پر پابندی لگائے بغیر ہی یہ قانون نافذ ہو جائے گا؟ یا ان ذرائع پر بھی وہی قانون اور حکومت و ریاست پابندی لگائے گی جو زنا کی سزا سنگسار بتاتی ہے؟اگر ایسا ہوتا کہ برائیاں تو اسی طرح عام ہوتیں جس طرح آج ہمارے درمیان چہار سو موجود ہیں، ان پر کسی سمت سے کوئی پابندی بھی عائد نہ ہوتی،اس کے باوجود زنا کے مرتکب لوگوں کو سنگسار کیا جاتا،تو کیا اس پس منظر میں یہ سزا خود ایک عظیم ظلم نہ ٹھہر تی؟ کیا یہ گمان کہ وہ معبودِ برحق جو انسانوں سے ان کے ماں باپ سے بھی حد درجہ محبت کرنے والا ہے نعوذ بااللہ انسانوں پر ایسا ظلم کرسکتا ہے؟نہیں ! ایسا نہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس برائی کو ختم کرنا چاہتا ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی سے دوچار کرنے والی ہیں اسی لیے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات واضح الفاظ میں آخری نبی محمد کے ذریعہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کو فراہم کردی ہے،فرمایا:
"اے نبیؐ ! ان سے کہو کہ آ ئو میں تمہیں سنائوں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے، اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ، اور کسی جان کو، جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ، ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ، یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے ، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔"(الانعام151)۔
یہ وہ موٹی موٹی خرابیاں اور برائیاں ہیں جن کا تذکرہ بطور تذکرہ نہیں بلکہ اسلامی نظام و حکومت کی موجودگی میں ان پر ہر ممکن گرفت کی جائے گی۔ برائیوں کو فروغ دینے والے ہر ممکن ذریعہ پر روک لگائی جائے گی، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے اسلامی تصور سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے گااور اِن تمام مراحل سے گزرنے کے بعد بھی اگر کوئی زنا کا مرتکب ہوتا ہے اُس وقت اس کو کھلے عام سنگسار کیا جائے گااس لئے کہ مجرمین کو سزا ملے اور اس لئے بھی کہ دیگر افراد منظر کو دیکھ کر برائی کی شدت سے نہ صرف متعارف ہوں بلکہ اس کے قریب بھی نہ جائیں۔
درحقیقت یہ وہ برائی ہے جو نہ صرف متاثرین اور اس میں ملوث افراد کے درمیان اپنے خبیث اثرات چھوڑتی ہے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کیلئے فکری و عملی ہلاکت کا بھی سبب بنتی ہے لہذا پہلے برائی کی شدت سے متعارف کرایا، اس کے پھیلاؤ پر گرفت کی گئی اور بعد میں انجام سے ڈرا نے کے علاوہ یہ بھی بتا دیا کہ دراصل یہ اللہ کی واضح ہدایات و حدود ہیں، ان سے گریز صرف وہی شخص و اقوام کر سکتی ہیں جو سمجھ بوجھ سے کام نہ لیں۔اس کے برخلاف اگر برائی میں لذت محسوس کی جائے،ذرائع پر گرفت نہ کی جائے اور پھر بھی زیادتی کی سزا پھانسی یا اسلامی قوانین پر عمل درآمد کی صدا بلند کی جائے تو ایسے لوگ ہی دراصل ظلم کے پرستار کہلائیں گے لیکن اگر ماحول ساز گار ہوچکا ہو،دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف بیٹھ گیاہو،جہنم کی ہولناکیوں اور جنت کے خوشنما مناظر سے لوگ نہ صرف واقف بلکہ ایمان بھی لے آئے ہوںیا حالات یہ ہوں کہ لوگ بیعت لے رہے ہوں،تو قرآن حکیم فرماتا ہے:
"اے نبیؐ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی ، زنا نہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے ہاتھ پائوں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی امرِ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی، تو ان سے بیعت لے لو اور اْن کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو ، یقینا اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔"(الممتحنہ12)۔
یہ وہ تعلیمات اور حالات ہیں جن میں نہ صرف اللہ تعالیٰ لوگوں کی مغفرت فرمائے گا بلکہ تبدیلی افکار و اعمال کے نتیجہ میں ایک صالح معاشرہ بھی وجود میں آئے گا اور یہی وہ حالات ہیں جن کی آج شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے لیکن "سوچنے سمجھنے والے دماغ "یا تو مسئلہ اور اس کے حل سے واقف نہیں یا نبی رحمت محمد سے بغض و حسد کے نتیجہ میں قرآنی تعلیمات و سنت رسولکی روشنی میں مکمل طور پر عمل درآمد کا جذبہ نہیں رکھتے یا پھر وہ چاہتے ہی نہیں کہ ان تعلیمات کو متعارف و نافذ کیا جائے۔حالات کے پس منظر میں یہ وہ بڑی رکاوٹ ہے جو کسی بھی مسئلہ کا واضح اور حتمی حل پیش نہیں کر سکتی۔اس کے باوجود ہدایت کے خواہشمند و طلبگاروں کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
"(اور اے نبیؐ ! )میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں ، تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں، پکارنے والا جب مجھ پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں لہذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں،(یہ بات تم انہیں سنا دو) شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔"(البقرہ186)۔