Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غربت کے ساتھ جہالت بھی ہو تو زندگی آزمائش بن جاتی ہے، رحمت النسا

 جو لوگ دوسرے علاقوں میں جابسے ،انہوں نے یہاں کئی کنویں کھدوائے، ہوا کے دوش پر گفتگو 
 زینت شکیل۔جدہ
ارحم الراحمین کی رحمت تمام مخلوق پر ہے۔ جو شخص ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس گنا اجر ملے گا اور جو شخص برائی لے کر آئے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا(سورہ انعام )
جس طرح عام انسان کی زندگی کے لئے ہوا،پانی، سورج کی روشنی اور مٹی ضروری ہے تو غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ اشرف المخلوقات 
 کی بخشش کے لئے نہایت آسان عمل اپنے رب کریم کو یاد کرنا ہے اور اسکا طریقہ بھی بتا دیا گیا کہ چلتے پھرتے ،اٹھتے بیٹھتے صبح جاگتے اور رات کوسوتے ،ہرنماز کے بعد تسبیحات اپنا معمول بنا لیں تو امید ہے کہ مالک حقیقی کی رحمت شامل حال ہو جائے گی اور، ان شاءاللہ، بغیر حساب کتاب جنت میں پہنچ جائیںگے۔
ہماراہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے اور انسان روز ، ایک نے سرے سے اپنے لئے روزی تلاش کرتا ہے اور یہ صورتحال اس جگہ زیادہ مشکل ہوتی ہے جہاں زمین بھی زیادہ زرخیز نہ ہو اور بارش بھی کم ہوتی ہو۔ اس سلسلے میں ہماری گفتگو ہوا کے دوش پر محترم محمد کھتی اور 
انکی اہلیہ محترمہ رحمت کھتی سے ہوئی۔
تھرپارکر کی رہائشی محترمہ رحمت النسا ءجو 1948ءمیں اس دنیا میں آئیں، آج بھی اپنی سرزمین پر اپنے خاندان کے ہمرا ہ رہتی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ہم اپنی زمین کو چھوڑ کر کہیں نہیں گئے ۔ میری جوسہیلیاں شادی کے بعد یہاں سے جا کرمختلف ممالک میں قیام پذیر ہوگئیں وہ ہماری آج بھی فکر کرتی ہیں۔
میں نے 7ویں جماعت تک مقامی سندھی اسکول سے تعلیم حاصل کی پھر تیسری جماعت تک انگریزی بھی پڑھی ۔ان کا خاندان مذہب سے خاص لگاﺅ رکھتا ہے اس لئے قرآن شریف کی تعلیم مبارک کے لئے انہیںمدرسے میں داخل کرایا گیا۔ تمام بچوں کے ساتھ ان کا امتحان بھی اچھا ہوا ۔اس کے بعد وہیں مدرسے میں چھوٹے بچوں اور بچیوں کو قرآن شریف کی تعلیم مبارک دینے لگیں۔
رحمت صاحبہ کا کہنا ہے کہ کسی فرد کا غربت میں زندگی گزارنا آسان نہیں لیکن غربت کے ساتھ جہالت بھی ہو تو سمجھیں زندگی آزمائش بن کر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اب جو اس آزمائش سے اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو نکالتا ہے وہ، یہ سب کچھ اکیلا نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے اجتماعی کوشش ہی بارآور ہوتی ہے ۔اندورن شہر بہت سے گاﺅں اور دیہات آج بھی ایسے ہیں کہ جو صرف20گھرانوں پر مشتمل ہیں یا وہاں زیادہ سے زیادہ 50 گھروں کی آبادی ہے پھر وہاں تک پہنچنے کے لئے دور دراز کا سفر بھی کرنا پڑتا ہے ۔وہ اپنی اسی زمین پر اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے۔جب قدرت مہربان ہوتی ہے تو بارش رحمت بن کر برستی ہے ،ہر طرف ہریالی ہو جاتی ہے ۔چہل پہل ہوتی ہے، ہر جگہ سبزہ اُگتا ہے، سبزیاں اور مویشیوں کا چارہ خوب ہوتا ہے ۔گائے بکریاں ہر ایک کے پاس ہیں انہیں چارہ اچھا ملتا ہے تو وہ دودھ بھی وافر دیتی ہیں۔ بچوں کی صحت بھی ان دنوں میں خوب اچھی ہو جاتی ہے۔ ایسے اچھے حالات میں لوگ اپنی جمع پونجی سے گھر بنانے اور شادی کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ عورتیں اپنی ثقافت سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے کپڑے تیار کرتی ہیں ۔سوتی کپڑوں پر بھی یوں مختلف رنگوںکے امتزاج سے کڑھائی کرتی ہیں کہ یہ ہر ایک کے لئے جاذب نظر بن جاتے ہیں۔ اپنے علاقائی زبان کے مشہور گیت گاتی ہیں اور سال کے کئی مہینے یوں آرام و سکون کے گزرتے ہیں۔وہاں کے لوگوں کی خوشیاں بارش کی نعمت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جب باران رحمت نہیں برستی تو کوئی شے اپنی جگہ پرنہیں ٹھہرتی۔
اسے بھی پڑھئے:زندگی میں اونچ نیچ قانون فطرت ہے، غزالہ راجہ
محترمہ رحمت نے بتایاکہ جب بارش نہیں ہوتی تو لوگ پانی کی کمی کا شکا ر ہو جاتے ہیں اور ایسی صورتحال میں وہ لوگ جو ہمارے 
 علاقے میں پہلے رہتے تھے ،پھر نصف صدی کے دوران یہاں سے دوسرے علاقوں میں جابسے ،وہ ہمیں آج بھی نہیں بھولے ۔انہوں نے یہاں کئی کنویں کھدوائے ۔تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہینڈ پمپ بنوائے جو یہاں کے مکینوں کے لئے بہت اہم بھی ہے ۔ یہ تو ہم سب کو ہی معلوم ہے کہ پانی کے کنویں تعمیرکرانے کا کتنا زیادہ ثواب ہے اور درخت لگانے کا بھی بے حد ثواب ہے۔ یہ صدقہ جاریہ ہیں یعنی ایسا صدقہ جو جاری رہتا ہے ۔انسان اس دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس کو ایسے کاموں کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ 
محترمہ رحمت کا کہنا ہے کہ زندگی ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر جگہ ترقی ہوتی ہے لیکن ہمارا علاقہ شہر کی ترقی سے بہت دور ہے لیکن یہ بات بھی سوچیں کہ کتنے لوگوں کو یہاں کے لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کے باعث ان کے نیک اعمال میں اضافہ 
 ہو رہا ہے۔ جب کوئی یہاں اچھے موسم میں آتا ہے تو یہ سفید ،صاف ستھری چاردیواری کے بیچوں بیچ مسجد کا گنبد اور اس کشادہ مسجد کے ایک طرف ہرا بھرا درخت جو نمازیوں کو اپنی گھنی چھاﺅں سے راحت دیتا ہے اور گرم موسم میں ہوا چلانے کا باعث بنتا ہے، دور سے ہی سفید دیواروں سے پرے سبز رنگ کا درخت ہر آنے والے کی آنکھوں کو بھاتا ہے۔
ہمارے یہاں آج بھی شادی بیاہ میں ویسی ہی رسمیں ہوتی ہیں جیسے پہلے ہوتی تھیں کہ شادی سے چند دن پہلے دلہن کے گھر مایوں کی رسم ہوتی ہے۔ اب ایک اوردن کی رسم بڑھ گئی ہے کہ کسی کسی گھرمیں مہندی کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے پھر شادی اور ولیمہ کی ایک ہی 
 تقریب ہوتی ہے۔ اکثر دونوں گھرانے مل کر اس تقریب کا انتظام کرتے ہیں ۔ایسے موقع پر دور دور سے گاﺅں دیہات کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ لڑکیاں شادی بیاہ کے مقامی گیت گاتی ہیں۔ ہاتھوں سے دیدہ زیب کڑھائی کے لباس زیب تن کرتی ہیں۔ کچھ شہر کی اشیاءبھی منگوائی جاتی ہیں۔ 
رحمت صاحبہ اور انکے شوہر آپس میں عمزاد بھی ہیں۔ اس لئے ان کی شادی کے موقع پر کئی نئی رسمیں نہیں ہوئیں اور گھر کا ماحول بھی مختلف نہیں ملا بلکہ ہر جگہ آسانی رہی، ذہنی ہم آہنگی پائی گئی ۔یہ صورتحال ہمیشہ رہی اس لئے محلے اور دور دراز کا سفر کرکے لوگوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینا اس وجہ سے آسان ہوگیا ۔
محترم محمد کھتی اپنی اہلیہ کے لئے تشکر کے جذبات رکھتے ہیں کہ ان کے بیٹے بیٹیاں سب نے اپنی والدہ سے اچھی تربیت پائی اور 
 اب انکے بیٹے ہر کام میں اپنے والد کا ساتھ دیتے ہیں ۔انکی سعادت مندی دراصل رب کریم کی عطا اور بچوں کی والدہ کی بہترین تربیت کا نتیجہ ہے۔
کئی ایسے لوگوں سے بات ہوئی جو محترمہ رحمت اورجناب محمد کھتی پر بہت بھروسہ کرتے ہیں اور آج بھی وہ کوئی بھی کام کہہ دیں تو وہ لوگ فوراً اپنی محنت سے مکمل کرتے ہیں۔خواہ کہیں ہینڈ پمپ یا کنواں بنوانے کا کام ہو یا مدرسے میںزیر تعلیم بچوں یا علاقے کے بزرگم مریضوں ، بے سہارا یا کسی ضرورت مند کے لئے کوی بھی امداد بھیجیں تو انکا درست استعمال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان پر لوگ اعتماد کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شفا کا کہنا ہے کہ میرے والدین نے مجھے بتایا کہ محترم محمد کھتی قرآن کریم کی تعلیم دیتے ہیں اور مسجد کے پیش امام ہیں۔ وہاں 
 بچوںکی تعلیم کے لئے مدرسہ بھی ہے اور دور درواز سے آنے والوں کے لئے ہاسٹل بھی ہے۔ اس کی رہائش کے ساتھ خوراک اور بیمار افراد کے علاج کے لئے ہر طرح کی سہولت دی جاتی ہے۔ ہم سب ایسے لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں جو واقعی ایمانداری سے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔ اس لئے اپنی پہلی تنخواہ انہیں بھیجی تاکہ اس کار خیر میں کچھ حصہ ہمارے لئے بھی مختص ہو جائے۔
محترمہ بنت زیبا کا کہنا ہے کہ میرے نانا جان اور نانی جان کی تربیت کی وجہ سے ہم لوگ دنیا میں کہیں بھی رہیں ،اپنے آبائی گھر اور سرزمین کونہیںبھلا سکتے۔ اس لئے جو کچھ بھی سال بعد توفیق ہوتی ہے، ہم اس کارخیر میں حصہ ڈالتے ہیں ۔یہ ہماری خوش نصیبی ہے۔

شیئر: