کیا پاک ہند تعلقات بہتر ہونگے؟
کراچی (صلاح الدین حیدر) یہ ایک ایسا سوال ہے جس میں ساری دنیا دلچسپی رکھتی ہے۔ برصغیر ہند و پاکستان 1947ءسے کئی دشوار گزار مراحل سے گزرے۔ دونوں ملکوں کی کرکٹ اور ہاکی کی ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف صف آراءہوتی تھیں بلکہ بین الاقوامی مقابلوں میں بھی ایک دوسرے کے مدمقابل رہتے رہے ہیں۔ ثقافتی شعبے میں ہندوستان کے شعراءکیفی اعظمیٰ، بےکل اتساہی، منظر بھوپالی، وسیم بریلوی، پاپولر میرٹھی، منور رانا، ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے ستارے شبانہ اعظمیٰ، دلیپ کمار، عامر خان، دیو آنند سب ہی کسی نہ کسی دور میں پاکستان آتے رہے۔ ہندوستان پاکستان کی کرکٹ اور ہاکی ٹیم ایک دوسرے کے ملکوں میں آمنے سامنے رہے۔ ورلڈ کپ، ایشیا کپ، چیمپئنز ٹرافی، سب ہی کھیلتے رہے ۔ ہندپاک مشاعرے باقاعدگی سے ہورہے ہیں، اس وقت کے پاکستانی صدر ایوب خان طیش میں آگئے اور دونوں ملکوں کی ٹیموں کے درمیان میچ ختم کردیا گیا، ہندوستانی فلمیں جو کہ اکثر پاکستانی سینماﺅں میں باقاعدگی سے دکھائی جاتی تھیں، بند کردی گئیں۔ 1978 میں اس وقت کے پی آئی اے چیئرمین اور سربراہ ایئر فورس نے پاک ہند کرکٹ اور ہاکی مقابلوں کو دوبارہ جاری کیا، جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئی، ویسے منقسم خاندان ایک دوسرے کے ممالک کا کھلے عام دورے کرنے لگے۔ فضا میں عرصے سے جاری رہنے والی خوشگوار تبدیلی آگئی لیکن پھر افغانستان جنگ کے دوران جب ہندوستانی ہائی کمیشن کے نزدیک بم بلاسٹ ہوا تو وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے فوراً ہند پر الزام لگا کر ویزا آفس بند کردیا جس پہ آج تک تالا لگا ہوا ہے۔
ایک طویل عرصے سے ہند پاکستان کی ٹیموں کے درمیان صرف بین الاقوامی سطح پر محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ یہاں تک ہوا کہ ہند حکومت نے اپنی کرکٹ اور ہائی ٹیموں کو پاکستان میں ہونے والے بین الاقوامی مقابلوں میں کھیلنے سے منع کردیا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات اس نچلی سطح تک گر گئے کہ مشترکہ مسائل پر بھی بات چیت برسوں سے نہیں ہو سکی۔ نواز شرف کے دوسرے دور حکومت میں بی جے پی کے وزیراعظم واجپائی نے بس کے ذریعے امرتسر سے لاہور تک کا سفر کیا اور پھر نریندر مودی نے نواز شریف کو نہ صرف اپنی حلف برداری شرکت کی دعوت دی جو قبول کر لی گئی بلکہ مودی ایک دن خود ہی لاہور آپہنچے اور نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کر کے ایک نئے اور خوشگوار دور کا آغاز کا عندیہ بھی دے دیا لیکن نامعلوم وجہ سے بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ تو سب مانتے ہیں کہ صدق دل سے کوئی قدم اٹھایا جائے تو نتائج اچھے ہی آتے ہیں۔ پاکستان نے تمام تر مخالفت کے باوجود کرتار سرحد کھولنے کی پیشکش کی تاکہ ہندوستانی سکھ یاتری اپنے مقدس مقامات جسے ایبٹ آباد میں گوردوارہ پر حاضر ہوسکیں۔ ہند نے تجویز رد کر دی حالانکہ یہ کسی عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ آرمی چیف جنرلقمر باجوہ کی طرف سے آئی تھی۔ قدرت کا کھیل دیکھئے کہ 10 سال بعد اجمل قصاب جسے ممبئی کے 5 اسٹار ہوٹل تاج پر حملہ کرنے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی، حالانکہ پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک نے اس الزام کو رد کردیا۔ خود ہندوستانی خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے قبول کیا کہ ممبئی حملہ ہند کی سازش تھی کہ پاکستان کو بدنام کیا جائے، ایک کتاب انڈین بیٹریال نے بھی ممبئی حملے کو ہندوستانی سازش قرار دیا، اب جب کہ ہندوستانی اخبارات نے جس میں ٹائمز آف انڈیا سر فہرست ہے نے اس پر سے پردہ اٹھایا کہ اجمل قصاب پاکستانی نہیں ہندوستانی شہری تھا۔ اس کے پاس اترپردیش کا ڈومیسائل تھا جو بڑی چھان بین کے بعد ملتا ہے، پاکستان میں بھی یہ چند کاغذات جمع کرنے پر ملتا ہے اترپردیش میں تو آپ کو 16/17 کاغذات جمع کرنے پڑتے ہیں تب کہیں سالوں میں جاکر ڈومیسائل ملا کرتا ہے۔
ہند کو سازش سے پردہ چاک ہونے پر اس قدر شرمندگی ہوئی کہ اس نے چند دنوں بعد کرتارپور کا بارڈر کھول دیا اور 300 کے قریب سکھ یاتری، واہگہ بارڈر کے ذریعے لاہور پھر ایبٹ آباد پہنچے۔ اگر ہندوستان کا دل صاف ہے تو پھر یہ دونوں باتیں کسی خوشگوار دور کی طرف اشارہ کرتی ہے ابھی دیکھنا ہے کہ ہندوستان کی حکومت انتخابی مہم کے دوران کیا کوئی بھرپور قدم اٹھا سکتی ہے کہ نہیں۔ بہرحال شروعات ہوچکی ہیں اور اچھے دنوں کی امید کی جاسکتی ہے۔