امریکہ کا مستقبل سعودیوں کے حوالے
ڈاکٹر عبداللہ بن موسیٰ الطائر ۔ الجزیرہ
سعودی امریکی تعلقات سے دکھی بعض لوگوں پر مملکت سے متعلق امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات بجلی بن کر گرے۔ صدر ٹرمپ نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر ہم سعودی عرب سے علیحدہ ہوتے ہیں تو تمہارے یہاں تیل کے نرخ تمہاری چھتوں کو اڑا دیں گے“۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”اگر آپ لوگ عالمی کساد بازاری دیکھنے کے آرزو مند ہیں تو آپ صرف اتنا کریں کہ ایک بیرل تیل کی قیمت 50ڈالر بڑھا دیں۔ اگر ہم نے سعودی عرب سے تعلق منقطع کیا تو یہ کام برق رفتاری سے انجام پاجائیگا“۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ”سعودی عرب معتبر اتحادی ہے۔ اس نے امریکہ میں غیر معمولی سرمایہ لگانے کی حامی بھری ہوئی ہے“۔ صدر ٹرمپ نے چوتھا بیان یہ دیا کہ سعودی عرب طویل عرصے سے اسٹراٹیجک شریک ہے۔ سعودی ہمارے یہاں اربوں ڈالر لگائے ہوئے ہیں“۔ ٹرمپ نے پانچواں بیان یہ دیا ”سعودی تیل کے نرخ کم رکھنے کا اہتمام کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں کارآمد ریاست ہے“۔
ہم مشرق وسطیٰ یا امریکہ میں ایسے لوگوں کو جن پر صدر ٹرمپ کا بیان بجلی بن کر گرا یہ یاددہانی کرانا چاہتے ہیں کہ اس وقت صدر ٹرمپ نے جو کچھ کہا وہ نئی بات نہیں کہی بلکہ انہوں نے سعودی امریکی تعلقات کی انمٹ تاریخ کا سچائی کے ساتھ اظہار کیا ہے۔
سابق امریکی صدر فرینکلین روز ویلٹ نے 1943ءکے شروع میں بیان دیا تھا ”سعودی عرب کا دفاع امریکہ کا ہی دفاع ہے“۔ سال مذکور کے ماہ ستمبر میں انہوں نے کہا کہ ”ہمیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنا ہے، میری آرزو ہے کہ آنے والے ایام میں ہم باہمی تعلقات اور مفادات پر گفت و شنید دوستوں کے طور پر کریں۔ مشترکہ جدوجہد کی بدولت ہم زیادہ روشن اور زیادہ سچے جہاں کی تعمیر و تشکیل کرسکیں گے“۔ بش جونیئر نے 2005ءمیں شاہ عبداللہ کے ساتھ مشترکہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”آج ہم اپنی نجی دوستی اور دو طرفہ تعلقات کی تجدید کررہے ہیں، ہم نے طے کیا ہے کہ دنیا میں اہم تبدیلیوں کا تقاضا ہے کہ اب تک طے شدہ امور پر مبنی مضبوط شراکت تشکیل دیں۔ عصر حاضر کے چیلنجوں سے نمٹنے اور آئندہ عشروں کے دوران دونوں ملکوں کو مہیا امکانا ت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ ہماری دوستی اس احساس پر مبنی ہے کہ دونوں ملک منفرد تاریخ رکھتے ہیں۔ یہ تاریخ باعث فخر و ناز ہے۔ امریکہ دنیا کے عظیم ترین مذہب اسلام کے سرچشمے کے طورپر سعودی عرب کا احترام کرتا ہے۔ سعودی عرب اسلامی عقائد کا مرکز بھی ہے۔ یہ حرمین شریفین کا پاسبان بھی ہے“۔ صدر بش نے یہ بھی کہا کہ” دونوں ملک باہمی تعاون جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں تاکہ مملکت سے تیل کی ترسیل وافر اور محفوظ شکل میں جاری و ساری رہے۔ امریکہ سعودی عرب کے اس عہد کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ وہ تیل منڈی کی ضروریات اور استحکام کیلئے اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا رہا ہے او رتیزی سے سرمایہ لگا رہا ہے۔“۔
1973ءاور 1979ءکے دوران امریکہ کساد بازاری کا شکار ہوا۔ یہ اس کی تاریخ کی بدترین کساد بازاری تھی۔ 1974ءمیں امریکہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہوچکا تھا اورسوویت یونین مشرق وسطیٰ پر اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ امریکہ نے اس بحران سے نکلنے کیلئے کیا کیا؟ صدر نکسن نے اپنا وزیر خزانہ زندگی یا موت کی مہم پر سعودی عرب بھیجا۔ امریکی وزیر خزانہ کو یہ مہم تفویض کی گئی کہ وہ سعودیوں کو اس بات پر قائل کرلیں کہ امریکہ تیل کے سودوں سے ملنے والی رقم جمع کرنے کیلئے دنیا کا سب سے محفوظ ملک ہے۔ امریکہ کے سامنے روبہ زوال معیشت کو بچانے کیلئے سعودی عرب کے ساتھ سمجھوتے کے سوا کوئی اور راہ نہیں رہ گئی تھی۔ امریکہ نے اپنے سارے خواب اور ساری آرزوئیں سعودیوں کے حوالے کردی تھیں۔ سعودیوں سے امریکہ کا دو ٹوک اور واضح مطالبہ یہ تھا کہ ”امریکہ سعودی عرب سے تیل خریدے او رمملکت کو فوجی سازوسامان اور تعاون فراہم کرے۔ اسکے بدلے سعودی تیل سے ہونے والی اربوں ڈالر کی آمدنی امریکی بانڈز خریدنے اور امریکی بجٹ کی فنڈنگ میں لگادیں“۔ یہ معاہدہ 1974 ءکے وسط میں ہوا تھا۔ اسے خفیہ رکھا گیا تھا۔ اسکا انکشاف 2016ءمیں جاکر کیا گیا۔ انکشاف سے ظاہر ہوا کہ سعودی عرب امریکہ کو قرضہ دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
معاملہ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ سعودی عرب اپنی تیل آمدنی امریکہ کے خزانوں میں جمع کرادے۔معاملہ یہ بھی تھا کہ تیل، امریکی ڈالر میں فروخت کیا جائے۔ فی الوقت یومیہ 100ملین بیرل تیل ڈالر میں فروخت کیا جارہا ہے۔ اگر صرف سعودی عرب پیٹرول یورو یا ڈالر کے سوا کسی اور کرنسی میں فروخت کرنے کا فیصلہ کرلے تو کیا صورتحال جنم لے گی اور بین الاقوامی اقتصادی نظام کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
امریکی صدر نے سعودی عرب کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ سعودی عرب کی اہمیت کے پیش نظر ہی کہا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کی تعریف و توصیف میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ سعودی امریکی تعلقات کے تاریخی تناظر سے ہٹ کر نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے تاریخی تعلقات کے پس منظر ہی میں کہا ہے۔ انہوں نے مذکورہ بیانات ذاتی مفادات کی تحریک پر نہیں دیئے۔ بلکہ اس ادراک کے ساتھ دیئے ہیں کہ وہ سعودی عرب کی اہمیت اور قدرو قیمت سے اچھی طرح سے واقف ہیں۔ صدر ٹرمپ نہیں بلکہ امریکہ کے تمام اداروںکو مملکت کی اہمیت کا علم ہے۔ بعض امریکی ادارے صدر ٹرمپ جیسی صاف شفاف اور مضبوط زبان میں اعتراف کررہے ہیں اور بعض حقائق پر پردہ ڈالنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭