کراچی (صلاح الدین حیدر ) تاریخ جتنی بے رحم ہوتی ہے، اتنی ہی انسانیت کے لئے رہنمائی کا کام بھی کرتی ہے، جہاں ہماری کمزوریوں کی نشاندہی کرتی رہتی ہے اور مستقبل میں سبق لینے والوں کے لئے بہت ہی مفید کردار ادا کرتی ہے، وہی اس سے سبق حاصل کرنے والوں کے لئے سم قاتل بھی ہے۔ امید تو ہے پی ٹی آئی کے سربراہ اور حال کے وزیر اعظم بھی مستفیض ہوں گے۔ غلطیاں تو انہوں نے بھی بے شمار کی ہیں لیکن اگر ان سے استفادہ کر کے مستقبل میں قوم کو صحیح راستے پر ڈال سکیں تو کوئی بھی مور خ انہیں نظر انداز نہیں کرسکے گا۔عمران اور پی ٹی آئی حکومت کے 100 دن آج کل مختلف حلقوں میں برسر تذکرہ ہیں۔ ہونا بھی چاہیے۔حکمرانوں کا ہر فیصلہ تاریخ کے آئینے میں دیکھنا پڑتا ہے جب ہی نتیجہ صحیح آتا ہے۔ تو آیئے دیکھتے ہیں کہ عمران خان کتنے کامیاب رہے اور کس حد تک ناکام؟ بے باک تجزیے میں تو صرف 20 فیصد کامیابی نصیب ہوئی مگر افسوس کہ ان کے 100 دن جو کہ خود ان کے اپنے مقرر کردہ ہیں کو اب تک اچھے الفاظ سے نوازا نہیں جاسکتا۔ یہ ان کی بدقسمتی کہیں یا قدرت کا انتقام جو کہ کوئی بھی غلطی کبھی معاف نہیں کرتی، بہرحال اب جو بھی کہا جائے یا تو حقیقت پر مبنی ہوگا یا پھر بدنیتی کا شکار۔ بد نیتی اس لئے کہ پاکستانی سیاست دنیا کی سیاست سے کچھ زیادہ ہی مختلف ہے۔ یہاں جان بوجھ کر حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں لوگوں کو ملکہ حاصل ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں، پہلے تو ہم یہ فیصلہ کرلیں کہ کسی بھی حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے 90 یا 100 دن کوئی معنی و مطلب نہیں رکھتے۔ 100 دن تو لوگوں کو کرسی پر بیٹھنے کے بعد صرف مسائل کا پوری طرح انداز ہ بھی نہیں ہوتا۔ انہیں حل کرنے کی کوشش تو ضرور کی جاتی ہے، لیکن حل نکالنا ممکن نہیں تو مشکل یقینا ہے۔ عمران یا کسی اور کو انتخابی مہم چلانے کے دوران صرف ایک ہی مقصد پیش نظر تھا، وہ ہے کسی طرح مخالفین کو زیر کر کے الیکشن جیت لیا جائے، ظاہر ہے کہ اس میں غلطیوں کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہی عمران کے ساتھ بھی ہوا۔ منصب سنبھالنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ سمندر میں ڈبکی لگانے کے بعد بھی اس کی گہرائی کی پیمائش نا ممکن ہے، ا تھاہ گہرائیوں میں کس کی ہمت ہوتی ہے کہ وہ کسی خاص حد کے بعد پہنچنے کی کوشش بھی کرے۔ خود عمران کے مطابق انہیں اندازہ تو تھا کہ رشوت ستانی عام ہے۔انتظامی امور میں بے شمار کمزوریاں ہیں جنہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ شروع میں تو انہوں نے سول سروس کو راہ راست پر لینے کی کوشش تو کی لیکن شایدلاحاصل رہی۔ بالاخر یہ تسلیم کرنا پڑا کہ حکومتی افسران یا پولیس کو صحیح کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ صرف تیشے کے ذریعے پہاڑ سے نہریں نہیں کھودی جاسکتیں۔ بڑی مشقت اور وقت درکار ہوتا ہے۔بہرحال عمران کو تھوڑا بہت کریڈٹ دینا ہی پڑے گا۔ جو کچھ پہلے انہوں نے افتتاحی تقریر میں فرمایا تھا۔ اس پر عمل کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آیا۔ تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینا کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔ اسے ابھارنے کا کام فرض اولین سمجھ کر کے عمران نے کیا،ہمت سے کام لیا اور سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کے دورے کئے۔ سعودی عرب کی طرف سے فوری طور پر ایک ارب ڈالر پاکستانی خزانے میں جمع کر ادئیے گئے۔ چین کی طرف سے فی الحال تو کسی رقم کے ملنے کی اطلاع نہیں ہمیں یہ بات کبھی بھی صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان سے زیادہ چین کو ہماری ضرورت ہے اس لئے وہ بھرپور انداز میں آپ کے ہم سفر رہنے پر مجبور ہے۔ ساﺅتھ چین کے سمندر کو اگرکوئی خطرہ پیدا ہوا تو چین کو نعم البدل راستے کی ضرورت پڑے گی تاکہ وہ اپنی استعداد کو آگے بڑھانے میں مشرق وسطیٰ اور یورپ کے میدانوں تک رسائی جاری رکھ سکے اور اس کی تجارت کو نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔ چینی صدر کا یہ بیان کہ ان کا ملک پاکستان کی مدد کے لئے ہمیشہ ہی آگے آگے رہے گا، بہت اہمیت کا حامل ہے۔ متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا سے عمران نے انتظامیہ کو صحیح کرنے اور غربت دور کرنے کا نسخہ بھی حاصل کرنا تھا جو کہ وفود کے ذریعے آئندہ چند مہینوں میں پورا ہوجائے گا۔ ملائیشیا، سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے سرمایہ کاری کی بھی بھرپور امید ہے۔ انگلستان اور متحدہ عرب امارات سے معاہدہ کی بات چیت چل رہی ہے جو مکمل ہونے کے بعد وہاں چھپے ہوئے پاکستانیوں اور ان کی ناجائز دولت کی واپسی اور اسحاق ڈار، حسن، حسین کی واپسی بھی ہوسکتی ہے۔ انگلستان کی طرف سے کافی سرمایہ کی امید ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ عمران اور ان کے لے پالک ساتھی بے دھڑک، بلا سوچے سمجھے بیانات دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے پھر ظاہر ہے کہ اپوزیشن خواہ مریم اورنگزیب ہوں، خورشید شاہ، شہباز شریف، حمزہ شریف، بلاول بھٹو سب ہی عمران کو دباومیں رکھنے کا کوئی موقع ضائع جانے نہیں دیں گے۔ ابھی سے انہوں نے محاذ تیار کر لیا ۔ عمران مخالفین کے نشانے پر ہر وقت رہنے کے عادی ہوچکے ہیں، وہ خود بھی وقتاً فوقتاً ایسی دھمکی آمیز بیان دینے سے باز نہیں آتے جو کسی وزیراعظم کے منصب اعلیٰ کے لیے مناسب نہیں۔ نتیجہ انہیں ہی بھگتنا پڑتا ہے، عوام میں پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے بے چینی عروج پر ہے جس سے لا محالہ اپوزیشن فائدہ اٹھاتی ہے۔ عمران کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ اوسط درجے کی خاتون خانہ کو جو مشکلات پیش آتی ہے گھر کا بجٹ بنانے میں وہی بہتر جان سکتی ہے۔ عمران کو اس کا خیال ہے کہ نہیں؟ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا، پھر بھی افواہیں کچھ اس طرح کی ہیں کہ وزیر خزانہ تبدیل ہونے والا ہے۔ رائے عامہ عموماً ڈاکٹر عشرت حسین کو دیکھنا چاہتی ہے جو کہ ایک مشہور ماہر معیشت اور اسٹیٹ بینک کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اس عہدے کے لئے کہیں زیادہ مناسب بھی ثابت ہوں گے۔ ایک بات جو عمران اور اسد عمر دونوں نے ہی کہی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لئے ہمیشہ ایسی کوئی بھی شرط منظور نہیں ہو گی جو ملکی مفادات کے خلاف ہو۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو، اس لئے کہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت سخت ہیں جس سے معیشت پر مزید بوجھ بڑھے گا۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ عمران نے خود ہی 100 دن کا شوشہ چھوڑا تھا۔ اب دنیا منتظر ہے کہ وہ کیسے اپنا وعدے پر پورا اترتے ہیں حکومت گرنے کا کوئی امکان نہیں، یہ طے ہے۔