نواز شریف جے آئی ٹی کے خلاف کیوں؟
کراچی (صلاح الدین حیدر) نواز شریف تو پہلے بھی 2 مرتبہ عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں۔ اس بار ان کی چیف جسٹس ثاقب نثار کے سامنے پیشی عجیب و غریب سی ہوئی۔ پہلے کئی مرتبہ استثنیٰ کی درخواست کے بعد انہیں شاید اس کی عادت ہوگئی تھی کہ ہر بار وہ کسی نہ کسی بہانے سے عدالت کے سامنے پیش ہونے سے کتراتے رہے۔ شاید یہ ان کے شایان شان نہیں تھا یا پھر اگر کوئی وجہ ہو تو اس کا علم نہیں جب ثاقب نثار نے سختی سے حاضر ہونے کا کہا تو بادل نخواستہ عدالت میں پیش ہوکر نئی منطق پیش کی کہ ان کا کیس کم از کم 5 ممبران کی بنچ کے سامنے لگایا جائے۔ یہ تو صریحاً عدالت کی توہین تھی۔ مدعی اپنی عرضداشت پیش کر سکتا ہے۔ اسے اس کا قانونی حق حاصل ہے لیکن اصرار نہیں کرسکتا۔ یہ عدالت کی مرضی کہ وہ دلائل سننے کے بعد کتنے ممبران کی بنچ بناتا ہے۔ نواز شریف کے کہنے پر چیف جسٹس شاید مذاق کے موڈ میں نظر آئے۔سابق وزیراعظم کو پیشکش کی کہ آپ خود ہی جج بن جائیں۔ منصف بن کر انصاف کریں لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟ ظاہر ہے نوازشریف کی سبکی ہوئی۔ انہوں نے اپنی بات پر مزید اصرار نہیں کیا۔ بھلا ایک آدمی جسے قانونی باریکیوں کا علم تک نہ ہو کیسے عدالت عدالت میں جج کے فرائض انجام دے سکتا ہے۔ جواباً انہوں نے جے آئی ٹی جو ملٹری انٹلیجنس اور دوسری تفتیشی ایجنسیوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے پر اعتراض کیا۔ عدالت کے سوال پر نواز شریف نے نئی منطق پیش کی کہ جے آئی ٹی کا طریقہ کار ٹھیک نہیں وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے تو پھر اب تک انہوں نے جے آئی ٹی پر اعتراض کیوںنہیں کیا؟ اب ایسا کون سا معاملہ ہوگیا کہ جے آئی ٹی کے قیام پر اعتراض کیا جائے۔ نواز شریف پر کیس یہ ہے کہ 1986ءمیں ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف پاکپٹن میں کچھ زمین الاٹ کردی تھی۔ ظاہر ہے کہ عدالت کی توہین تھی، جس کا اب نوٹس لیا گیا ۔ انہوں نے انکار کیا کہ 32 سال پہلے اوقاف ڈپارٹمنٹ کو 14.294 کنال زمین کی سمری پر دستخط کئے تھے۔ نواز شریف کی طرف سے جے آئی ٹی کونہ ماننا، کچھ عجیب ہی کہانی لگتی ہے، وہ پچھلے کئی روز سے عجیب و غریب دلائل عدالت میں پیش کرنے لگے ہیں۔