عمران کی تقریر، امید و بیم کی ملی جلی کیفیت
موضوع زیر بحث پر تبصرہ مشکل تو نہیں لیکن اتنا آسان بھی نہیں، تقریر کا مکمل جائزہ ظاہر ہے دو چار ہفتوں یا مہینوں میں ممکن ہوجائے گا لیکن ایک بات تو سب کو ماننی پڑے گی کہ عمران نے بین الاقوامی سطح پر عمدہ کارکردگی دکھائی ہے۔ ان کے سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کے دورے ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کی نظروں میں اہمیت نہ رکھتے ہوں لیکن جس طرح سعودی عرب نے فوری طور پر ایک ارب ڈالر ہمیں دیئے اور تیل کی فراہمی کی قیمت 3 سال تک موخر کر کے ہماری بہت بڑی پریشانی دور کردی، وہ قابل تعریف ہے۔ اس سے انکار کرنا یا اس کی افادیت کو کسی اور نظر سے دیکھنا تعصب کہا جائے گا۔
چین نے ابھی تک تو کوئی خاص رقم کی صورت میں نہیں دیا لیکن کیا یہ کافی نہیں ہے کہ چینی حکومت نے ایک نہیں کئی بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ چین پاکستان کے ہر مشکل میں اس کا ساتھ دے گا، جیسی بھی صورت حال کو چینی حمایت جاری رہے گی۔ پھر ایسی خبریں آرہی ہیں کہ سی پیک کے تحت جس پر 67 ارب ڈالر خرچ ہونگے اس میں اچھے خاصے منصوبے صوبہ سندھ میں شروع ہوچکے ہیں۔ پنجاب میں بھی ملتی جلتی صورت حال ہے جبکہ بلوچستان تو خیر ان تمام منصوبوں کا گڑھ ہے۔ یہ بات تو اب زبان زد عام ہے کہ پاکستان کو اس سے بے انتہا فائدہ ہوگا لیکن چین کو بھی اس منصوبے کی اشد ضرورت ہے۔ خدا نخواستہ اگر بحیرہ سائوتھ چین میں کل کلاں گڑبڑ ہوتی ہے جس کے چانس تو کم ہیں لیکن مستقبل کا حال صرف غیب کو ہے تو پھر چین کو یورپ اور مشرق وسطیٰ سے تجارتی راہداری صرف گوادر کے ذریعے ہی ممکن ہوگی، ظاہر ہے چین ایسے منصوبے سے ہاتھ نہیں اٹھاسکتا۔ ایسا کرنا اس کے حق میں ہی نہیں تو پھر پاکستان کو کس بات کی تشویش ہوسکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کے دورہ کے بارے میں عمران نے کھل کر کہا کہ ملائیشیا سے بھی بے انتہا سرمایہ کاری ہونے کی امید ہے۔ ان کی ملاقات مہاتیر محمد سے جو اس وقت دنیائے اسلام کے سب سے عقلمند لیڈر تصور کیے جاتے ہیں اور جنہوں نے 22 سال حکومت کر کے اپنے ملک کی تقدیر بدل ڈالی عمران کی تفصیلی ملاقات ہوئی ۔
سب سے بڑی اور اہم بات تو عمران کو ہند کے ساتھ کرتارپور کھولنے کے بعد جو شہرت ملی وہ ہند کی وزیر خارجہ کے لئے سبکی کا باعث تھا۔ سشما سوراج اپنی پاکستان دشمنی کی وجہ سے خاصی مشہور ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی آگرہ یاتر کے دوران اٹل بہاری واجپائی جو اس وقت ہندوستان کے وزیراعظم تھے کے درمیان ایک معاہدہ کشمیر طے پاگیا تھا لیکن سشما سوراج جو اس وقت وزیر اطلاعات تھیں اور ا نکے ساتھ کابینہ کے ساتھی ہوم منسٹر لال کشن اڈوانی نے اپنی پاکستان دشمنی میں اچھے خاصے معاہدہ کو سبوتاژ کردیا۔ اس پر دستخط نہ ہوسکے اور مشرف کو مایوسی کی حالت میں ہند سے لوٹنا پڑا لیکن کرتارپور سرحد کھولنے پر سشما سوراج نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش تو ضرور کی۔ شاید اس خیال سے اس سے ان کی پارٹی پی جے پی کو انتخابات میں جو اپریل میں ہونے والے ہیں سکھوں کی حمایت سے دستبردار ہونا پڑے، خاموش ہی رہیں۔ یہ عمران کی پہلی فتح تھی لیکن پھر بھی عمران نے بجائے اس سے کسی قسم کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے پھر سے ہند کو دعوت مذاکرات دی کہ آئیں میز پر بیٹھیں اور کشمیر پر کچھ سوچ بچار کرتے ہیں۔ آخر اس مسئلے کو تو حل کرنا ہی پڑے گا۔ اس سے بھی زیادہ پاکستانی وزیراعظم کو اس وقت خوشی ہوگی جب انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خط ملا جس میں طالبان سے مذاکرات کرنے کی خواہش کی تکمیل میں عمران کی مدد کی درخواست کی گئی۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں تھی، خاص طور پر اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے کہ صرف ایک ماہ پہلے ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا لیکن عمران نے بھی جس طرح ان کے الزامات کا جواب دیا وہ قوم کے لئے خوشی کا باعث تھی۔ عمران نے جس طرح امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سپرپاور کو ترکی بہ ترکی جواب دیا جیسا کہ 1955 میں اس وقت کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے چینی وزیراعظم چواین لائی سے ملاقات کر کے دنیا کو پیغام دیا تھا کہ پاکستان ایک باوقار قوم ہے جو اپنی خود مختاری پر کسی کی برتری قبول نہیں کرے گا۔ پھر انگلستان اور فرانس کا سوئیز کنال پر حملے میں بہترین پالیسی بیان دیا جو کہ باوقار قوم کے شایان شان تھا۔آج امریکہ کو احساس ہوگیا ہے کہ اسے چونکہ اب افغانستان سے نکلنا ہی ہے تو پھر پاکستان سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ عمران اور پاکستان کے لئے یہ بہت بڑی بات تھی۔ اگر ہم واقعی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہوجائیں تو امریکہ کی نظروں میں ہماری قدر و منزلت بہت بڑھ جائے لیکن 80 فیصد وعدے وعید ایسے ہیں جنہیں شاید ہی عمران پورا کرسکیں۔ اس وقت عمران اپوزیشن کی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن انہیں اپنی صفوں میں سے کالی بھیڑوں کو نکالنا پڑیگا اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔