Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

توبہ…شرائط اور آداب

 صغیرہ گناہوں سے بھی بچنا چاہیئے ورنہ یہ انسان کو کبیرہ گناہوں سے جا ملاتے ہیں،جب صغیرہ گناہ کو بار بار انجام دیا جائے تو وہ کبیرہ بن جاتا ہے
اسامہ شعیب علیگ۔دہلی
انسان گناہوں کا پُتلا ہے۔ اس سے ہر وقت چھوٹے بڑے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔بڑے سے بڑا متقی اور پرہیز گار شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ گناہوں سے بالکل پاک ہے یااس سے کبھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا لیکن ایک مومن اور غیر مومن میں فرق یہ ہے کہ مومن جب کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ فوراً اپنے رب کی جانب پلٹتا  اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہے۔قر    آن ایسے لوگوں کی یہ صفت بیان کرتا ہے :
’’اور وہ لوگ کہ جب کوئی برا کام کرتے یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ معاف کرنے والا ہے بھی کون؟اور وہ اپنے کیے ہوئے کام پر اصرار نہیں کرتے اور وہ یہ بات بھی جانتے ہیں۔‘‘  (آل عمران135)۔
جبکہ غیر مومن ایسا نہیں کرتا ۔اسی کو حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ نے اس طرح سے فرمایا ہے:
’’مومن اپنے گناہوں کو یوں دیکھتا ہے جیسے وہ ایک پہاڑ کے دامن میں بیٹھا ہو اور ڈرتا ہو کہ وہ اس پر گر نہ پڑے اور فاجر اپنے گناہوں کو ایسے دیکھتا ہے گویا ایک مکھی تھی جو اس کی ناک پر بیٹھ گئی تھی اور جسے اس نے ہاتھ ہلا کر اڑا دیا۔‘‘(مسند احمد )۔
نبی کریم کے بعد صحابہ کرام کے دور میں رفتہ رفتہ جب امت ِ مسلمہ کا زوال شروع ہوا تو بعض گناہوں کو چھوٹا اور کم تر سمجھ کر نظر انداز کیا جانے لگا۔ حضرت عبادہ بن قرطہؓ  اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کرفرماتے ہیں:
’’تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے بھی باریک ہوتے ہیں جبکہ ہم انہیں رسول اللہکے زمانہ میں ہلاک کر دینے والے کام شمار کرتے تھے۔‘‘(الدارمی )۔
آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم برابر چھوٹا بڑا گناہ کرتے رہتے ہیں لیکن اس کو گناہ نہیں سمجھتے یا بہت معمولی گناہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں ،جیسے آفس کی چیزوں کو خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، ذاتی سمجھ کر استعمال کرنا خیانت اور گناہ ہے لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہمارے دلوں سے اللہ تعالیٰ پر یقین، جزا و سزا کا احساس اور حلال و حرام کی تمیز نکل چکی ہے جبکہ  نبی کریمنے فرمایا:
’’گناہوں کو حقیر سمجھنے والی باتوں سے بچو،گناہوں کو حقیر سمجھنے والوں کی مثال ان لوگوں کی ہے جو ایک وادی کے دامن میں اترے ، ہر شخص نے ایک ایک لکڑی جمع کی حتیٰ کہ اتنی لکڑیاں اکٹھی ہو گئیں جن سے انہوں نے اپنی روٹیاں پکائیں اور گناہوں کو حقیر سمجھنے والی باتیں کبھی اپنے کرنے والے ہی کو پکڑ لیتی ہیں اوراسے ہلاک کر دیتی ہیں۔‘‘(مسند احمد )۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صغیرہ گناہوں سے بھی بچنا چاہیے ورنہ یہ انسان کو کبیرہ گناہوں سے جا ملاتے ہیںاسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب صغیرہ گناہ کو بار بار انجام دیا جائے تو وہ کبیرہ بن جاتا ہے اور اگر کبیرہ گناہ پر استغفار کیا جائے تو وہ کبیرہ نہیں رہتا۔
گناہوں کے نقصانات :
ابن قیم ؒ  رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الدا ء  والدواء میں گناہوں کے کئی نقصانات بتائے ہیں جو درج ذیل ہیں:
¤علم سے محرومی¤دل میں وحشت¤کاموں کا گراں بار ہونا¤بدن کا کمزور ہوجانا¤برکت کا اٹھ جانا¤توفیق کی کمی¤سینہ میں گھٹن¤ برائیوں کا پیدا ہونا¤گناہوں کا عادی ہونا¤اللہ تعالیٰ اور دنیا والوں کی نگاہوں میں گر جانا¤دل پر مہر لگ جانا ¤دعا کا قبول نہ ہونا¤شرم و حیا اور غیرت کا ختم ہو جانا¤لوگوں کا رعب دل میں بیٹھ جانا اور دنیا و آخرت میں عذاب کا مستحق ہو جانا وغیرہ۔
اسلئے انسان کو گناہوں سے بچنا چاہئیے اور اگر کوئی گناہ ہو بھی جائے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنی چاہئیے  کیو نکہ اللہ تعالیٰ انتہائی رحم کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے۔ وہ ایسے بندوں پر رحمت و شفقت فرماتا ہے جو اس کی طرف حقیقی معنوں میں رجوع کرتے ہیں۔قرآن کریم میں اس کی جگہ جگہ ترغیب دلائی گئی ہے، مثلاً:
  ¤اے مومنو!تم سب مل کراللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرو ،توقع ہے کہ تم فلاح پا ؤ گے (النور31)۔
¤اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو،خالص توبہ (التحریم 8)۔
خوداحادیث میں بھی لوگوں کوتوبہ پر ابھارا گیا ہے۔نبی کریم سے زیادہ متقی اور پرہیزگار شخص کون ہو سکتا ہے ؟لیکن آپ فرماتے ہیں:
’’ اے لوگو! توبہ کیا کرو، میں خود دن میں 100 مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔‘‘(الدارمی )۔
اللہ تعالیٰ توبہ کیلئے انسان کو کچھ مہلت عطا کرتا ہے اور اسے موقع دیتا ہے کہ وہ توبہ کر لے،نبی کریم نے فرمایا:
’’بائیں طرف والا فرشتہ خطا کرنے والے مسلمان بندے سے 6 گھڑیاں قلم اٹھائے رکھتا ہے پھر اگر وہ نادم ہو اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے تو نہیں لکھتا ورنہ ایک برائی لکھی جاتی ہے۔‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی )۔
بارگاہِ الٰہی میں توبہ کی قبولیت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک انسان جان کنی کے عالم میں نہ پہنچ جائے،اس کے بعد قبولیتِ توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص نزع کے وقت سے پہلے اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جس شخص نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کر لی اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔‘‘(مسند احمد)۔
توبہ کی شرطیں :
توبہ کرنا بظاہر بہت آسان کام لگتا ہے کہ زبان سے بس توبہ کا لفظ کہہ دیا اور توبہ ہو گئی اور سارے پچھلے گناہ معاف ہو گئے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ۔اگرہم قرآن کریم کی اس آیتِ کریمہ: 
وان استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ’’ اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو، پھر اسکے حضور توبہ بھی کرو‘‘(ھود 3)  پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ توبہ صرف استغفار کا نام نہیں بلکہ اس کیساتھ ضروری ہے کہ انسان جس گناہ کا مرتکب ہوتا رہا ہے اس کو وہ فوراً مکمل طور سے ترک کر دے،اسے اپنے کیے پر ندامت ہو،اسے دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرے ، جن  پر اس نے ظلم کیا ہے یا حق دبایا ہے تو اس کو واپس کرے اور ان سے معافی طلب کرے۔ان کے علاوہ ایک سچی توبہ کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان گناہ کوصرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ڈر سے ترک کرے۔لوگوں کا ڈر ،بدنامی کا خوف،شہرت پر دھبہ لگنے کا اندیشہ ،طاقت اور قدرت کی کمی کی وجہ سے دوبارہ اسے انجام نہ دے پانا وغیرہ سبب نہ بنے۔ جیسے کسی انسان کا بدن شل ہو جائے اور وہ چوری ہی نہ کر سکے تو توبہ کرلے ۔ 
توبہ پر ثابت قدمی کیسے؟ :
سب سے پہلے تو انسان کو جلد ازجلد توبہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے  کیونکہ  اس میں تاخیر کرنا بذات خود ایک بڑا گناہ ہے،ساتھ ہی اس کو اس بات کا ڈر ہوناچاہیئے کہ معلوم نہیں اسکی توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں؟اس سے وہ دوبارہ اسکا مرتکب ہونے سے بچ سکے گا۔وہ گناہوں والی جگہوں اور برے ساتھیوں کو بھی چھوڑ دے ورنہ ان میں لوٹ جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔اگر اس کے پاس کچھ حرام اشیاء  ہوں تو ان کو تلف کر دے ورنہ یہ چیزیںاس کو دوبارہ برائیوں میں مبتلا کر دینے کا سبب بن سکتی ہیں۔نیک دوستوں کا انتخاب کرے تا کہ وہ اس کو توبہ پر ثابت قدم رکھنے میں مدد کر سکیں۔ایسی علمی مجالس اور ذکر کے حلقوں میں شرکت کرے جو اس کو ان گناہوں سے باز رکھ سکیں، حلال کمائی سے اپنی پرورش کرے اورکسی بھی گناہ کو کم تر نہ سمجھے۔ان تمام اصولوں سے وہ توبہ پر ثابت قدم رہ سکتا ہے۔
توبہ کرنے میں شیطان کی طرف سے رکاوٹیں :
شیطان کبھی یہ نہیں  چاہتا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور نیک راستے پر چلے۔ اسکی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اگر کوئی توبہ کر کے سیدھے راستے پر چلنا چاہے تو اسے روکے۔اس کیلئے وہ مختلف حیلوں، بہانوں اور وسوسوںسے کام لیتا ہے۔ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں توبہ توکرنا چاہتا ہوں، لیکن کیا اسکی کوئی ضمانت ہے کہ اگر میں توبہ کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دیں گے؟اگر مجھے یقینی طور پر علم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دیں گے تو میں توبہ کر لوںیا یہ کہ مجھ سے اتنے زیادہ گناہ ہو گئے ہیں اور اس کی کوئی ایسی قسم نہیں  جسے میں نے انجام نہ دیا ہو تو کیا اللہ تعالیٰ کیلئے مجھے معاف کر دینا ممکن ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی تمام باتیں ایک مومن کو زیب نہیں دیتیں۔اسکا مطلب یہ ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت ،اس کی رحمت کی کشادگی پر یقین نہیں جبکہ قرآن کہتا ہے :
’’اور میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔‘‘(الاعراف156)۔
اسی طرح وہ اس بات پربھی یقین نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بخش سکتا ہے اور معاف کر دینے کے بعد بھی اس کے گناہوں کو مٹانے کی قدرت نہیں رکھتا(نعوذ باللہ)جبکہ اللہ تعالیٰ حدیثِ قدسی میں فرماتا ہے:
’’اے ابن آدم!تُوجب بھی مجھے پکارے اور مجھ سے توقع رکھے تو تیرے جتنے بھی گناہ ہوں گے میں بخش دوں گا اور مجھے اس کی ذرا بھی پروا نہیں،اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندی کو پہنچ جائیں پھر تُومجھ سے بخشش طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں،اے ابن آدم!اگر تُو زمین بھر گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس حال میں ملے کہ تُو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں زمین بھر بخشش لے کر تیرے پاس آئونگا۔‘‘ (ترمذی)۔
اور رہی بات گناہوں کو مٹانے کیلئے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی توایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
جسے علم ہو گیا کہ میں گناہ معاف کرنے کی قدرت رکھتا ہوں تو میں اس کے گناہ بخش دوں گا،بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔اس کے بعد رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ بات آخرت میں ہو گی جب بندہ اپنے پروردگار سے ملے گا(المستدرک علی الصحیحین )۔
اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں توبہ تو کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے ساتھی مجھے اس سے روکتے ہیں اور وہ میرے ماضی کے گناہوں اور رازوں کو عام کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
  درحقیقت یہ لوگ انسان کو راہِ راست پر دیکھنا نہیں چاہتے  اس لئے وہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیئے اور: حسبنا اللہ و نعم الوکیل’’ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے جو بہترین کار ساز ہے‘‘(آلِ عمران 173)پڑھنا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی مومنوں کا مددگار ہے اور انہیں کبھی وہ مشکل میں تنہا نہیں چھوڑتا ۔ارشادِ ربانی ہے:
’’ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت،دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے۔‘‘(ابراہیم27)۔
پھر بھی اگر زیادہ مسئلہ ہو جائے اور اس بات کا ڈر ہو کہ پرانی باتوں اور گناہوں سے معاملہ بگڑ سکتا ہے تو قریبی لوگوں کو اعتماد میں لیکر بتا دینا چاہیئے کہ مجھ پر شیطان حاوی تھا اور غلطیاں ہو گئی تھیں لیکن میں نے اب توبہ کر لی ہے۔ویسے بھی حقیقی رسوائی وہ ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہو گی اور اس وقت حضرت آدم ؑ سے لے کر آخری انسان تک موجود ہوں گے اس لئے اس دنیا ہی میں ہم سب کو اپنے گناہوں سے توبہ کر لینی چاہیئے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان پھر نیکیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔وہ بھی اس طرح سے کہ بسا اوقات شیطان بھی افسوس کرنے لگتا ہے کہ کاش میں نے اس کو اس گناہ میں مبتلا نہ کیا ہوتا۔
 
 
 
  
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: