بڑھتا سیاسی بحران اور پی ٹی آئی کے خواب
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کے خلاف ملکی تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی دعویٰ کیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ آنے کے بعد سندھ سے چیخنے چلانے کی آوازیں آنا شروع ہو چکی ہیں۔ بظاہر دیکھا جائے تو اس وقت ملک شدید سیاسی بحران کا شکار ہے۔ حکومت کرپشن کے نام پر بڑے اقدامات کررہی ہے، جن کی بلاشبہ تعریف کی جانی چاہیے، اس کام میں سب سے زیادہ متحرک ادارہ نیب ہے جو آئے روز کوئی نیا اسکینڈل یا کیس سامنے لے آتا ہے جس میں بڑے نام شامل ہوتے ہیں اور اس کے بعد ایک نئے موضوع پر مباحثوں کا آغاز ہوتا ہے۔
مسلم لیگ ن کو سائیڈ پر لگایا جا چکا ہے۔ 3 مرتبہ وزیر اعظم بننے والے سربراہ سمیت پارٹی کی سینئر ترین قیادت جیل میں قید ہے اور باہر بیٹھے افراد کے سر پر نیب کی تلوار لٹک رہی ہے۔ مقدمات عدالتوں میں جاری ہیں اور اس طرح سے مسلم لیگ ن کو غیر معمولی نقصان پہنچ چکا ہے اور اس وقت اس کی سیاسی پوزیشن بہرحال ویسی نہیں، جو ہونی چاہیے تھی۔ن لیگ کو سائیڈ لائن کرنے کے بعد سیاسی نابالغ اور ناتجربہ کار جماعت سندھ میں حکمرانی کا خواب دیکھ رہی ہے اور اس حوالے سے اس نے ’’کام‘‘ شروع کردیا ہے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے اسکینڈلز سامنے آ چکے ہیں، اس حوالے سے جے آئی ٹی نے ایک رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے جس پر سماعت پیر کے روز ہوگی تاہم اس سے پہلے ہی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے تحت وزارت داخلہ نے 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کردیے ہیں تاکہ کوئی بھی شخص جو جے آئی ٹی کی فہرست میں شامل ہے، ملک سے فرار ہونے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ فہرست میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن میں سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کے بیٹے بلاول بھٹو، بہن فریال تالپور، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے نام شامل ہیں۔پیپلز پارٹی آئے روز مختلف شہروں میں جلسے کررہی ہے جس میں پارٹی قیادت بھی حکومت کے آگے گھٹنے ٹیکتی نظر نہیں آ رہی اور آصف زرداری کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ نہ جھکیں گے اور نہ ہار مانیں گے۔ دونوں جانب سے سخت اور دھمکی آمیز بیانات کے نتیجے میں سیاسی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکائونٹس پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ مسترد کر چکی ہے تاہم اصل بات یہ ہے کہ آج پیر کے روز سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوگی اور اگر یہ رپورٹ درست ثابت ہو گئی یا زیادہ نہ سہی، اشارتاً ہی کچھ شواہد نظر آ گئے تو مسلم لیگ ن کے بعد پیپلز پارٹی کا بھی برا وقت شروع ہو جائے گا اور اس کے نتائج سنگین ہی دکھائی دے رہے ہیں۔صورت حال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر جے آئی ٹی کی حالیہ رپورٹ ثابت نہ ہو سکی تو ملک میں جاری احتساب کے عمل پر سوالیہ نشانات ثبت ہوں گے جو پہلے ہی کسی حد تک نظر آ رہے ہیں۔ ایک احتساب ہی ایسا موضوع ہے جس کے نام پر تحریک انصاف کی حکومت چل رہی ہے، دیگر اقدامات کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی خاص مثبت پیشرفت دکھائی نہیں دیتی۔ قبل ازیں مسلم لیگ بھی اپنے خلاف تمام کارروائی کو انتقام قرار دے چکی ہے اور اسے تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے خلاف احتساب کے نام پر انتقام کی سیاست کا عنوان دے دیا گیا ہے۔ اس وقت پوری اپوزیشن اس نقطے پر متفق ہے کہ حکومت حزب اختلاف کے خلاف یکطرفہ، متعصبانہ اور انتقامی حربے استعمال کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اس کام میں نیب سب سے آگے ہے جس پر سپریم کورٹ بھی اظہار برہمی کر چکی ہے۔
اس وقت سندھ میں گورنر راج کی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں جبکہ تحریک انصاف کے رہنما صوبائی حکومت کے مخالف گروپ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ شنید ہے کہ آج وفاقی وزیر اطلاعات بھی سندھ پہنچیں گے جس کے بعد وزیر اعظم تشریف لائیں گے۔ اسی دوران تحریک انصاف اور سندھ اپوزیشن کی جانب سے جے آئی ٹی کی حالیہ رپورٹ پر ردعمل کے طور پر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے استعفے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ زیر تفتیش وزیر اعلیٰ صوبے میں حکمرانی کا حق کھو چکے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا فارورڈ بلاک بنانے کی کوششوں کے حوالے سے بھی باز گشت جاری ہے، غرض یہ کہ صوبے کی حکمراں جماعت کو چاروں شانے چت کرنے یا گھیرنے کیلئے ہر طرف سے پورا زور لگایا جا رہا ہے۔
موجودہ حالات کے تحت یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نیا سال (2019ء) حکومت اور اپوزیشن، دونوں کے لیے کڑا امتحان ہوگا کہ اسی سال ملک کی 2 بڑی جماعتوں اور ان کی قیادت کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ 2020ء میں سینیٹ میں بھی اپوزیشن جماعتیں اپنی اکثریت کھو بیٹھیں گی جس کیلئے انہیں اپنی طاقت منوانے کے لیے 2019ء ہی کا وقت دستیاب ہوگا کہ خود کو پاک صاف کرتے ہوئے تحریک انصاف کی جانب سے لگائے گئے کرپشن کے دعوے اور الزامات غلط ثابت کردیں، بصورت دیگر ان کا انجام تو نظر آ ہی رہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر قابض ہونے کی کوششوں کے لیے ملک کا سیاسی ماحول خراب کرنے کے بجائے قانونی راستے اختیار کریں۔
اپنی جانب سے تمام معاملات کا دفاع کریں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ حکومت کو کرنا ہوگا کہ وہ اپنے الزامات کو ثابت کرے جو بظاہر ابھی تک نہ ہی واضح طور پر مسلم لیگ ن یا اس کی قیادت کے خلاف ثابت ہو سکے ہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے خلاف ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ گو کہ عدالت کی جانب سے ن لیگ کی قیادت کو سزا مل چکی ہے تاہم دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف تاحال اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے صحت جرم سے انکاری ہیں۔
معاشی لحاظ سے حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جس کے نتائج کسی حد تک سامنے آتے دکھائی دیں۔