قرآنی آیات میں تفکر اور تدبر
احمد الرضیمان ۔ الوطن
اگر مفتی صاحب سے کوئی سائل استفسار کرے تو حسن فراست کا تقاضا ہے کہ مفتی سوال کا جواب دینے سے قبل اسے استفسار سے زیادہ مفید باتیں ضرور بتا دے ۔ یہ سبق ہمیں قرآن میں مذکور یوسف علیہ السلام کے قصے سے ملتا ہے۔ ان سے جیل کے ساتھیوں نے خواب کی تعبیر دریافت کی تو انہوں نے تعبیر بیان کرنے سے قبل توحید کا درس دیدیا۔
قرآن کریم میں ہر مشکل کاحل ہے ۔قرآن ہدایت اور بیماری کے علاج کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تفکر ، تدبر اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ القرآن کی ہر سورت بلکہ ہرآیت اور ہر جملہ عظیم فوائد کا گلدستہ ہے۔ سورہ یوسف کی بھی ایک ، ایک آیت فوائد کا مخزن ہے۔ نمایاں ترین فوائد یہ ہیں۔
1۔ بندہ ایسی بات کسی کو نہ بتائے جسے ظاہر کرنے سے اسے نقصان کا خدشہ ہو۔ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کو نصیحت کی تھی کہ تم اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا وگرنہ وہ تمہارے خلاف چالیں چلیں گے۔
2۔ گناہوں کی لعنت سے اجتناب کیا جائے کیونکہ ایک گناہ کو چھپانے کیلئے کئی گناہ کرنے پڑتے ہیں۔ دیکھئے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے جھوٹ بولنے اور اپنے بھائی یوسف کو ٹھکانے لگانے کا گناہ کیا تو انہیں متعدد دروغ بیانیوں پر مجبور ہونا پڑا۔ انہوں نے اس سلسلے کا پہلا جھوٹ یہ بولاکہ ”ہم دوڑ کا مقابلہ کررہے تھے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا“۔ دوسرا جھوٹ یہ تھا کہ اپنے باپ کے سامنے جھوٹ موٹ روتے دھوتے داخل ہوئے۔ تیسرا جھوٹ یہ بولا کہ ”بھیڑیا یوسف کو کھا گیا“۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جھوٹ کو چھپانے کیلئے انسان پے درپے جھوٹ بولنے پر مجبور ہوتا ہے۔
3۔ اعتبار حسن انجام کا ہوتا ہے نہ کہ ناقص شروعات کا، دیکھئے ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جو کیا وہ برا کیا البتہ آخر کار وہ تائب ہوئے، اپنے کئے پر نادم ہوئے ۔اپنے بھائی ”یوسف“ اور اپنے والد یعقوب علیہ السلام سے عفو و درگزر کے طلب گار ہوئے۔
4۔ ہر بدی ایک درجے کی نہیں ہوتی۔ کوئی ہلکی تو کوئی بھاری ہوتی ہے۔ ایک بھائی نے رائے دی تھی یوسف کو قتل مت کرو بلکہ اسے اندھے کنویں میں ڈالدو۔ یہ رائے بلاشبہ بدی تھی تاہم قتل کی رائے کے مقابلے میں کم درجے کی بدی تھی۔ قتل پر عمل نہ کرنے سے ان کے گناہ کی شدت کم ہوگئی۔اس نے یوسف سے عفو و درگزر طلب کرنے کی راہ پیدا کردی۔ اگر انہوں نے یوسف کو قتل کردیا ہوتا تو ان کا گناہ گھناﺅنا ہوجاتا اور معافی طلب کرنے کی راہ مسدود ہوجاتی۔
5۔ خواتین کی چالوں سے بچنا چاہئے۔ عزیز مصر کی بیوی نے جب یوسف علیہ السلام کو رجھایا تو وہ بھاگ گئے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”میری وفات کے بعد عورتوں کا مردوں کو بہکانا سب سے بڑا فتنہ ہوگا“۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خواتین کو نماز میں مردوں کی صفوں سے فاصلے پر رکھا کرتے تھے۔
6۔ یوسف علیہ السلام جسمانی اور روحانی ہر لحاظ سے خوبصورت تھے۔ زلیخاکی سہیلیوں نے ان کے ظاہری حسن کا اعتراف یہ کہہ کر کیا تھا کہ ”یہ انسان نہیں“۔ انہوں نے حسن یوسف کی تجلی میں محو ہوکر اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ جہاں تک انکے حسنِ باطن کا تعلق ہے تو اسکا اعتراف عزیز مصر کی بیوی نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ میں نے اسے رجھانے کی کوشش کی لیکن یہ پاکدامن رہا۔
7۔ مفتی، سائل کو اس کے استفسار کا جواب دینے سے قبل مناسب حال ، زیادہ اچھی بات پہلے بتائے۔ یوسف علیہ السلام سے رفقائے جیل نے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے تعبیر بیان کرنے سے قبل انہیںتوحید کا درس دیا اور شرک سے منع کیا۔
8۔ توکل علی اللہ کیساتھ کسی عہدیدار سے مدد طلب کرنا سبب طلبی ہے۔ یوسف علیہ السلام نے رہائی پانے والے سرکاری قیدی سے درخواست کی تھی کہ وہ انکا تذکرہ اپنے بادشاہ سے کرکے انہیں جیل سے رہائی دلوائے۔
9۔ برائی کا ریکارڈ رکھنے والوں سے بدگمانی میں کوئی قباحت نہیں۔ اسکی اجازت یعقوب علیہ السلام کے اس تاریخی جملے سے ملتی ہے جس میں انہو ںنے اپنے بیٹوں سے کہا تھا: کیا میں اسکی بابت تم پر ویسے ہی بھروسہ کرلوں جیسا کہ اس سے قبل اسکے بھائی کے بارے میں تم پر اعتماد کرلیا تھا۔
10۔ ذو معنی جملوں کا استعمال دروغ بیانی سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ سبق یوسف علیہ السلام کا دیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ” اللہ کی پناہ! ہم ایسے شخص کو اپنی تحویل میں کیونکر لے سکتے ہیںجس کے پاس سے ہمیں سامان نہ ملا ہو“۔ یوسف علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ ”جس نے ہمارا سامان چرایا ہو “کیونکہ ان کے بھائی نے سامان چرایا نہیں تھا بلکہ اسے روکنے کیلئے یہ حیلہ اختیار کیا گیا تھا۔
11۔ غربت اور افلاس کے بعد راحت اور آسائش ملنے پر اللہ کا شکر واجب ہے۔ دیکھئے یوسف علیہ السلام نے یہی کیا تھا۔ انہوںنے فرمایا تھا”اللہ نے مجھے جیل سے نکال کر اور آپ لوگوں کو بدویانہ زندگی کے دائرے سے نجات دلانے پر مجھ پر احسان کیا “۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ جیل سے رہائی اور بدویانہ زندگی سے آزادی ایسی نعمت ہے جو شکریہ کی مستحق ہے۔
12۔ یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو معاف کرکے ان کیساتھ لطف و کرم کا معاملہ کیا۔ ان کے ساتھ ادب اور شائستگی کا مظاہرہ کیا۔ یوسف علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے مجھے جیل سے رہائی دلاکر مجھ پر کرم کیا۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ نے مجھے اندھے کنویں سے نکال کر مجھ پر رحم کیا۔ اسی طرح یوسف نے یہ نہیں کہا کہ شیطان نے میرے بھائیوں کو گمراہ کیا اسکے بجائے انہوں نے کہا کہ شیطان میرے اور بھائیوں کے درمیان حائل ہوگیا۔
(امام محمد بن عبدالوہاب نے سورة یوسف کے 350اور شیخ السعدی ؒ نے بھی کئی فوائد بیان کئے ہیں۔ دونوں عمدہ حوالے ہیں)
٭٭٭٭٭٭٭٭