عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
انسان کو اپنی زندگی بہتر سے بہتر بنانے کی تمنا ہمیشہ سے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ نت نئی چیزوں کی جستجو میں رہتا ہے ۔ اسی لئے وہ تجربات کرتا ہے جس میں کبھی وہ کامیاب ہوتا ہے اور کبھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے اونچائی سے زمین کا نظارہ کرنا اچھا لگتا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ بنی نوع انسان کی یہ بھی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ بلندی کی سطح پر اسکا اختیار ہو اور اس کی اونچائی تک پہنچنے کی استطاعت ہو کیونکہ بلندی پر چڑھ کرنیچے کا نظارہ بہت ہی دلفریب ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ اس کے کئی فوائد ہوتے ہیں۔ بلندی کی سطح پر ہر چیز بڑی آسانی سے دکھائی دیتی ہے اور حد نگاہ تک ہر چیز دکھائی دیتی ہے خواہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہو یا تفریح کی غرض۔ دونوں سے ہی انسان کو فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دشمن کی فوج اگر آرہی ہو تو بلندی سے بآسانی دیکھا جاسکتا ہے یا کوئی ایسا خطرناک قافلہ ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہو تو اس کوبلندی سے دیکھ کر پہلے سے ہی تیار ی کی جا سکتی ہے ۔اسی لئے اکثر فوجیں پہاڑوں پر چڑھ کر اپنے مورچے بناتی ہیں تاکہ چھپ کر دشمنوں کا جائزہ لے سکیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ دور دراز کے علاقوںپر اپنی کڑی نگاہ میں رکھ سکتی ہیں۔
ماضی میں جس طرح پانی کے جہازکو دیکھنے کیلئے روشنی کے مینار تعمیر کرائے جاتے تھے ،ان کو تعمیر کرانے کے دو مقاصد ہوتے تھے۔ ایک یہ کہ وہ بلند ترین عمارت ہوتی تھی لہٰذا اس سے جو روشنی نکلتی تھی ، وہ دور دراز علاقوں تک پھیلتی تھی اور پانی کے جہاز میں بیٹھے لوگوں کو سمت کا تعین کرنے میں آسانی ہوتی تھی ۔ وہ دوسری سمت سے آنے والے جہازوں کو بآسانی اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔ جیسے جیسے دنیا میں سائنس ترقی کی منازل طے کرتی گئی،نئی نئی عمارتیں تعمیر ہوتی چلی گئیں۔ انسان سائنس کے میدان میں ترقی کرتا گیا، اسکی آنکھیں بھی کھلتی چلی گئیں اور پھر بلند ترین عمارتیں بھی تعمیر ہونا شروع ہوگئیں۔ان کا استعمال بھی کچھ اور ہی انداز میں ہونے لگا جیسے امریکہ میں امپائر اسٹیٹ بلڈنگ۔ اس وقت اس کا شمار بلند ترین عمارتوں میں ہوتا تھا پھر رفتہ رفتہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہوئیں پھر امریکہ اور دیگر ممالک میں ہی مختلف ٹاورز کی تعمیر کی گئی جن کو مختلف نام دیئے گئے ۔مثال کے طورپر ایفل ٹاور، برج خلیفہ اور اسی طرح کے دیگر ٹاورزاس فہرست میں شامل ہیں۔
ماہرین فن تعمیرات کی ایک کمیٹی نے نیویارک سٹی میں حال ہی میں مکمل ہونے والے ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو امریکہ کی بلند ترین عمارت قرار دیا ہے ۔ یہ عمارت اس تاریخی عمارت کی جگہ تعمیر ہوئی ہے جو 2001ءمیں دہشتگردی کا نشانہ بنی تھی۔ دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت چینی شہر شنگھائی میں ہے۔ اس عمارت کی اونچائی 2073فٹ ہے ۔عالمی تاریخ کی ابھرتی ہوئی طاقت کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ دنیا میں بلند ترین عمارتیں تعمیر کرائے اور دنیا میں اپنا سکہ جمائے۔ برج خلیفہ دبئی میں ہے اس عمارت کی اونچائی 2716فٹ ہے اور اب تک یہ دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت شمار کی جاتی ہے۔ اسی طرح ابراج البیت ٹاور مکہ مکرمہ میں ہے ۔یہ دنیا کی تیسری بلند ترین عمارت ہے اور اسکی اونچائی 1971فٹ ہے۔ ان عمارتوں کو تعمیر کرنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ان بلند ترین مقامات سے ملک کی گہری نگرانی کی جاسکے یعنی اچھی طرح سے جائزہ لیا جاسکے ۔ اس کے علاوہ مواصلات کیلئے تو خاص طور پر بلند عمارتوں کو استعمال کیاجاتا ہے ۔ آج کے دور میں بلند ترین مقامات پر موبائل فونز کے ٹاور بھی نصب کئے جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ بلندی پر چڑھ کر نظارہ کرنے کا دلفریب منظر تو کچھ اور ہی لطف دیتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ برازیلی شہر ریو ڈی جینرو میں واقع شگولوف ماﺅنٹین سیاحوں کے لئے خصوصی کشش کا باعث ہے، یہاں سے شہر کا بہترین نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے یہاں آنےوالے ورلڈ کپ میں شائقین یہاں کا رخ کریںگے۔ اسکا مقصد یا تو کھیل دیکھنا ہوتا ہے یا پھر دلکش مناظر دیکھنے کیلئے لوگ آتے ہیں۔ شگولوف کی چوٹی سے ریو ڈی جینرو کو دیکھتے ہیں تو اس سے شہر کے مختلف زاویے مزید نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ ہم اونچائی سے کسی بھی شہر کے حصے کی خوبصورتی کا نظارہ کرسکتے ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
اس لئے ابتدائی ادوارمیں انسانوں نے جسمانی طور پر اونچے اونچے بھاری بھرکم جانوروں پر سواری کرنا پسند کیاتاکہ حد نگاہ تک چیزیں بڑی واضح اور صاف دکھائی دیں جس کے لئے اس نے زرافے کو منتخب کیا مگر جلد ہی اسے مسترد کردیا گیا کیونکہ وہ اپنی لمبی گردن کے باوجود رفتار میں کافی سست تھا۔
ماضی میں لوگ ہاتھی اور اونٹ کو سواری کیلئے استعمال کیا کرتے تھے ۔ان کا مقصد بھی یہی ہوتا تھا کہ اونچائی سے دور تک کی چیزیں دیکھ سکیں۔ دشمن کی فوجیں آرہی ہوں تو انہیں دیکھا جاسکے یا پھر کوئی سرحد پارسے دراندازی کر رہا ہو تو اس پر بھی نظر رکھی جاسکے۔سچ یہ ہے کہ انسان کی عادت میں شامل ہے کہ وہ اونچی سطح سے بیٹھ کر حکم چلائے ،بلندی پر مقیم ہو او راونچائی کا استعمال کرے لہٰذا وہ رفتہ رفتہ مختلف انداز انسان اپناتا گیا ہے۔ بلند ترین عمارتوں کے اوپر درخت بن رہے ہیں۔ مواصلاتی نظام قائم کیا جارہا ہے ۔یہاں تک کہ چاند کو دیکھنے کیلئے دوربین نصب کی جارہی ہے ۔ اس لئے اب بچوں کو بھی اونٹوں سے سچی دوستی کرلینی چاہئے ۔ہمارے بچے بھی کسی سے کم نہیں ان کو بھی دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرنا ہے ۔ابھی سے وہ اونچائی سے چیزوں کا مشاہدہ کرنا شروع کردیں کیونکہ بڑے ہوکر انہیں زندگی میں بہت بڑے کام انجام دینے ہیں۔ آخر کو وہ وطن کے معمار ہیں اور انہوں نے اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ۔ انہیں بھی اونچائی سے چیزوں کا نظارہ کرنے اور لطف اندوز ہونے کا حق ہے۔