ھدیٰ الحسینی۔الشرق الاوسط
ایران نے سبز باغ دکھاکر افغانیوں کو ’’فاطمیون‘‘دستے کا حصہ بناکر جنگ کیلئے شام بھیج دیا تھا۔اب جب ایران میں اقتصادی بحران نے دھماکہ خیز شکل اختیار کی تو انہیں شام سے افغانستان واپس بھیج رہا ہے۔ افغانیوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں ایران میں رہائش بھی فراہم کی جائیگی اور روزگار کا بھی موقع دیا جائیگا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ بتا رہی ہے کہ ابتک 730ہزار افغانی ایران سے وطن واپس چلے گئے ہیں۔ ایران کے بحرانی حالات کے پیش نظر روز گار کے مواقع کم ہوجانے پر ہی افغانی وطن واپس جانے پر مجبور ہوئے ۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی بحالی کے بعد ایران کے اقتصادی حالات دن بہ دن بد تر سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔
افغانستان واپس ہونے والے افغانیوں کا مسئلہ دوچند ہوگیا ہے۔ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ ایران بڑی حد تک اس کا ذمہ دار ہے ، وہاں اقتصادی حالات بھی پیچیدہ ہیں۔عالمی برادری بھی افغانیوں کی وطن واپسی کو بوجوہ تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔
افغانیوں نے سوویت یونین کی لشکر کشی کے زمانے میں 1979ء کے دوران افغانستان سے ایران اجتماعی ہجرت کی تھی۔ تب سے ایران کا افغان مہاجرین کے ساتھ رویہ کبھی فیاضانہ ضیافت اور کبھی عداوت کا رہا ہے۔ 1979اور 1989ء کے دوران تقریباً26لاکھ افغانی ہجرت کرکے ایران پہنچے تھے۔ اُس وقت ایران ان کیلئے اپنے دروازے چوپٹ کھولے ہوئے تھا۔ انہیں ’’مہاجر‘‘کے لقب سے جانا پہچانا جارہا تھا۔ افغانی ، لادین قابض طاقت کے جبر سے جان بچانے کیلئے ایران ہجرت کررہے تھے۔ ایران نے انہیں غیر معینہ مدت تک اپنے یہاں رہنے کی اجازت دی تھی۔ انہیں صحت خدمات، پرائمری اور ثانوی اسکول کی مفت تعلیم کی سہولت بھی مہیا کی تھی جبکہ انہیں ایران میں روزگار کی بھی اجازت تھی۔ عام طور پر افغانی معمولی اجرت والے دستی کام ہی حاصل کیا کرتے تھے۔
9ویں عشرے کے وسط اور پھر سیاسی دباؤ کے تحت ایران میں کساد بازاری آئی۔ حکومت نے افغانیوں کو دی جانے والی سبسڈی واپس لے لی۔ ہجرت سے متعلق دہری پالیسی اختیار کی۔ نئے افغان پناہ گزینوں کا استقبال کیا گیا۔ ان کے ساتھ سخت شرائط اختیار کی گئی جبکہ مہاجر کہے جانے والے افغانیوں کو ترک مکانی کی راہ دکھائی گئی۔
1992ء کے دوران افغانستان میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکنے اور 1996ء میں کابل طالبان کے قبضے میں چلے جانے کے بعد افغانستان سے جو افغانی ایران پہنچے انہیں پناہ گزین کا نام دیا گیا، مہاجر کا نہیں۔انہیں ایک برس کا اقامہ جاری کیا گیا۔ ایرانی حکومت نے غیر قانونی مہاجرین کی بیدخلی کی تحریک بھی چلائی ، روزگار کے سلسلے میں پابندیاں لگائیں۔تقریباً8لاکھ افغانیوں کو نویں عشرے کے دوران واپس افغانستان بھیجاگیا۔ 2001ء میں بیدخلی کا سلسلہ بڑھا دیا گیا۔2002اور 2004ء کے دوران 750ہزار افغانی ایران سے بیدخل کئے گئے۔
اقتصادی بدحالی کے باعث ان دنوں افغانستان سے ہزاروں لوگ اجتماعی شکل میں ایران کا رخ کررہے ہیں۔ اب ایرانی ان کے ساتھ غیر معیاری طرز معاشرت اختیار کررہے ہیں۔ ایران میں افغانیوں کی حیثیت نمبر 2کے شہریوں کی ہے۔ افغانی افیون اور منشیات کی اسمگلنگ کے دھندے میںبھی لگے ہوئے ہیں۔یہ لوگ معمولی کام کرکے آمدنی افغانستان میں اپنے اہل خانہ کو بھیجتے ہیں۔ایرانی ریال کی قدر میں کمی نے صورتحال اور سنگین کردی۔ بعض افغانی ایران کے راستے ترکی اور وہاں سے یورپی ممالک کا رخ کرنے لگے ہیں۔اس صورتحا ل کے افغان معیشت پر بھی گھناؤنے اثرات پڑنے لگے ہیں۔ ماضی میں افغانیوں کی آمد اور واپسی کا دونوں ملکوں کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ افغانستان کمزور ہی رہے۔ایران افغانستان میں امریکہ نواز حکومت کے قیام کا بھی مخالف ہے۔