محمد امین الدین انصاری ۔ جدہ
جدہ میں فن موسیقی اور گلوکاری میں نام اور مقام رکھنے والے بے شمار فنکار موجود ہیں، ان میں انتہائی عزت اور وقار کے ساتھ غزل اور فلمی نغموں کے حوالے سے حیدرآباد دکن کے معروف گلوکارمحمد مجیب الرحمن صدیقی،عرف امجد کا نام سرفہرست ہے ۔ مجیب صدیقی کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہوئی دل میں اتر جاتی ہے اور وہیں ڈیرہ ڈال لیتی ہے ۔ موصوف کی وضع قطع، ان کا انداز گفتگو ،موقع کی مناسبت سے زیب تن پیرہن، جہاں ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے ،وہیں وہ آنکھوں کے رستے سے خود بخود ہی دل میں اتر جاتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ موسیقی ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی ہے کیونکہ جب کبھی محفل موسیقی میں کوئی بے سرا گلوکار”شور بپا “ کر رہا ہوتا ہے تو مجیب صدیقی کا نہ صرف موڈ خراب ہوجاتا ہے بلکہ بسا اوقات وہ محفل سے ہی اٹھ کر چلے جاتے ہیں ۔ یہ وتیرہ بھی موصوف کی نستعلیقی طبیعت کی عکاسی کرتا ہے ۔انہوں نے جدہ میں” انجمن بزمِ اردو ادب و موسیقی “قائم کی جس کے تحت مشاعرے اور محافل موسیقی منعقد کی جاتی رہیں۔ بعد ازاں جدہ کے معروف آرگنائزر عارف قریشی کے ہمراہ مختلف محافل میں شرکت کرتے رہے ۔ ان محفلوں میں جدہ کا یادگار تمثیلی مشاعرہ شامل ہے جس میں انہوں نے مرزا غالب کا کردار ادا کیا اور بے شمار نغمے بھی گائے۔
42 سال مملکت سعودی عرب میں گزارنے کے بعد مشہورگلوکار مجیب صدیقی 7 فروری کو وطن عزیز حیدرآباد دکن واپس لوٹ رہے ہیں ۔ انکی واپسی سے جدہ کی محفلیں جہاں بے رونق اور مدھم پڑجائیں گی وہیں انکی شخصیت جو کسی بھی تقریب کے وقار اور حیدرآبادی تہذیب کا خاصہ ہوا کرتی ہے، اس کی عدم موجودگی بھی شدت سے محسوس کی جائے گی ۔ انکی وطن واپسی سے قبل اردو نیوز نے انکے فن اور شخصیت پر گفتگو کی، جس کا احوال نذر قارئین ہے :
٭سوال:محترم مجیب صدیقی آپ کو موسیقی یا گلوکاری سے لگاو¿ اورشوق کب سے ہوا؟
جواب :بچپن سے مجھے گلوکاری کا شوق تھا ۔میں اسکول کے ابتدائی ایام میں ہی ملی اور قومی نغمہ گنگنایا کرتا تھا۔ کلاس میں کبھی اسکول کی اسمبلی میں مجھ سے قومی ترانے پڑھوائے جاتے۔ یہ اس لئے بھی ممکن ہوا کیونکہ قدرت نے مجھے خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔
٭سوال:آواز کی آپ نے بات کی تو موسیقی میں کس قسم کی آواز زیادہ اہمیت رکھتی ہے اورکسے لوگ پسند کرتے ہیں؟
جواب :آوازتو قدرت کی عطاہے ، اس کو سلیقے اور احتیاط کے ساتھ، سنبھا ل کر نشیب و فرازسے گزارا جائے، زیر و بم میں اتارا جائے ، لفظوں سے سنوار جائے ، ترنم سے نکھارا جائے توہر سماعت اسے نغمہ¿ جانفزا قرار دے گی۔ بے شمار لوگوں کی آواز بہت اچھی ہوتی ہے لیکن وہ فن موسیقی کے رموز کو نبھانے سے قاصر رہتے ہیں لہٰذا وہ بہترین آواز کے باوجود ناکام گلوکار رہتے ہیں ۔موسیقی میں وہی آواز ترقی کرتی ہے جو ریکارڈنگ کے بعد سنی جائے اور ایک مرتبہ سننے والے کو بار بار سننے پر مجبور کردے ۔ دنیا کا کامیاب گلوکار وہی کہلاتا ہے ۔
٭سوال :آپ کو بچپن سے گانے کا شوق تھاتو آپ نے ابتدائی ایام میں اس کو حصول معاش کا ذریعہ بنانے کی کوشش نہیں کی؟
جواب : میری آواز اور فن کو دیکھتے ہوئے 1976ءمیں آل انڈیا ریڈیو نے باضابطہ میرا تقرر کیا اور میں نے اپنی آواز میں چند نغمے اور غزلیات بھی ریکارڈ کرائے تاہم انہی دنوں میں نجانے قدرت کو میری کونسی ادا پسند آگئی کہ میں، الحمدللہ، سعودی عرب آگیا اور 40 سال سے زائد کا عرصہ ایک ہی یونیورسٹی کے مختلف وائس چانسلروں کے ساتھ بحیثیت سیکریٹری خدمات انجام دے کرگزار دیا ۔ اب وطن لوٹ رہا ہوں ۔
٭سوال:بچپن سے آپ کو گلوکاری کا شوق تھا لیکن باضابطہ گلوکاری آپ نے کب سے شروع کی؟
جواب:بچپن میں مجھے طلعت محمود کی آواز اور گلوکاری سے پیار ہوگیا تھا۔ میں نے اپنی شروعات ان ہی کے نغموں سے کی ۔لوگوں نے میری آواز کو بہت پسند کیا ۔مجھے حوصلہ ملتا گیا اور میں نے بے شمار اسٹیج پروگراموں اور نجی محفلوں میں اپنی آواز کا جادو جگایاتاہم 1986ءمیں جب ہندوستان کے مشہور زمانہ پلے بیک سنگر محمد رفیع کا انتقال ہوا تو میری زندگی میں ایک موڑ آیا ۔میں نے رفیع صاحب کو گانا شروع کیا۔اس نئی تبدیلی نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ حوصلے عطا کئے اور عوام مجھے جونیئر رفیع کے نام سے پکارنے لگے ۔ بس پھر کیا تھا میں نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا ۔میرا سفر رفیع صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے جاری و ساری رہا ۔ آج بھی میں اسی انداز میں نغمہ سرا ہوتا ہوں۔
٭سوال :جدہ آنے کے بعد آپ کو عالمی شہرت یافتہ گلوکاروں کے ہمراہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع تو ضرورملاہوگا اور اگر ملا تو کن کن کے ہمراہ ؟
جواب :میں جب جدہ پہنچا تو محفل موسیقی یا مشاعرے گھر کی چار دیواری میں ہوا کرتے تھے ۔ میں بھی ان میں شرکت کرتا تھا۔مجھے خوشی ہوتی جب لوگ میرے فن کو پسند کرتے اور حوصلہ افزائی کرتے وہ مجھے قدر و منزلت کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے ۔اس دوران میں نے جدہ کے معروف آرگنائزر عارف قریشی کی رفاقت میں کئی اسٹیج پروگرام کئے اور پھر میں نے بین الاقوامی شہرت یافتہ پلے بیک سنگرز محمد عزیز ، شبیر کمار ، انور صاحب کے ہمراہ اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔
٭سوال :آپ فن گلوکاری شوقیہ کرتے تھے یا پروفیشنل؟ اس کو پروان چڑھانے میں گھروالوں کا کتنا تعاون تھا؟
جواب : سب سے پہلے یہ بتادوںکہ میں جس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، اس میں موسیقی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھاچونکہ مجھے یہ شوق بچپن سے تھااور یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ جنون بن گیا تھا لہٰذا شادی کے بعد بھی میں موسیقی کی محافل میں شرکت کرتا اورگھر سے باہر رہتا جس کے باعث مجھے گھریلو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔خاندان کے افراد اور میری اہلیہ نے نہ صرف ناراضی کا اظہار کیا بلکہ رکاوٹیں ڈالنے کی بھی کوشش کی لیکن میرا جنون کامیاب ہوگیا اور ان لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی تاہم آج تک انہوں نے میرا ساتھ نہیں دیا۔فن کے حوالے سے میں نے موسیقی کے تمام رموز کا بھرپور انداز میں خیال رکھا اور کوشش کی کہ جس کا گانا گارہا ہوں ،اس فنکار کے رنگ میں خود کو ڈھال لو ں۔ یہی وجہ ہے کہ میری آواز اور نغمہ سرائی کو لوگ پسند کرتے ہیں ۔
٭سوال :کیا یہاں سے جانے کے بعد آپ حیدرآباد میں اس جنون کو برقرار رکھنا چاہیں گے؟
جواب :یقینا میرا یہ جنون وطن عزیز میں اور سرچڑ ھ کر بولے گا کیونکہ وہاں کی زمین فن موسیقی کے لئے زرخیز ہے ۔میں اپنے فن میں اور نکھار پیدا کرونگا اور بڑے سے بڑے پروگراموں میں شرکت کرونگا ۔ماضی میں بھی میرے کئی شوز جدہ کے علاوہ مملکت کے دیگر شہروں اور ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں ہوچکے ہیں ۔
٭سوال :40 سال کے بعد آپ مستقل بنیادوں پر وطن جارہے ہیں ۔آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
جواب : میں کہنے کو 40 سال تک پردیس میں رہا لیکن ہر وقت میرا دل ہندوستان اور وطن عزیز حیدرآباد دکن کیلئے دھڑکتا رہا ۔ مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ میں اپنے وطن ، اپنے پیروں پرچل کر جارہا ہوں ۔مجھے اپنے ملک سے بے انتہا پیار ہے۔میرے شہر کی تہذیب و تمدن ، آپسی بھائی چارگی ، خلوص و محبت،اخوت کے جذبے جو میں نے اپنے وطن میں دیکھے ہیں، وہ دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں دیکھے۔ یہی وجہ تھی کہ40 سال میں وسائل ہونے کے باوجود میں نے اپنی چھٹی کسی اور دیس میں نہیں گزاری۔ جب بھی موقع ملا، وطن عزیز کا رخ کیا ۔
٭سوال :مملکت سے جانے کا آپ کو کتنا دکھ اور افسوس ہے ؟
جواب: بحیثیت مسلمان ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں رہیں، حرمین شریفین کیلئے ہمارے دل دھڑکتے اور تڑپتے رہتے ہیں ۔ دم آخر تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی بار بار حاضری کی تمنا دل میں ہوتی ہے ۔یہی تمنا اور تڑپ مجھے بے چین کئے رکھے گی اور ایک کسک رہے گی کہ میں حرمین شریفین سے دور ہوگیالیکن قلب مطمئن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسباب بنائے گا اور ، ان شاءاللہ، ہمارا آنا جانا لگا رہے گا۔
سوال :باضابطہ گائیکی آپ نے کسی اسکول یا استاد کی سرپرستی میں شروع کی ؟
جواب : میں نے باضابطہ کسی استاد سے گائیکی نہیں سیکھی لیکن ہاں ہندوستان کے وہ عظیم گلوکار جن میں محمد رفیع ، مکیش ،کشور کمار، مناڈے جیسے فنکار شامل ہیںجو حقیقتاًاپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے۔ انہوں نے گائیکی میں مختلف انداز پیش کئے۔ میں نے ان کو اتنا سنا ، اتنا سنا کہ ان کو اپنے اندر اتار لیا۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ عظیم فنکار ہی میرے استاد ہیں ۔
٭سوال :موجودہ گلوکاروں میں آپ کس کو پسند کرتے ہیں ؟
جواب : آج موسیقی نے نیا رنگ اپنا یا ہوا ہے ۔سبھی نئے گلوکار اچھا گاتے ہیں لیکن جن کا میں نے اوپر ذکر کیاان فنکاروں نے جو فن چھوڑا ہے، وہ ایک عظیم اثاثہ ہے۔ اس میں فن کی تسکین ہوتی ہے۔ موجودہ دور کے فنکاروں میں اس کا فقدان ہے ۔
٭سوال : آپ نے موسیقی کو تسکین کا سامان کہا ،کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے ؟
جواب : موسیقی انسانی زندگی کو غم دوراں اور غم جاناں سے چھٹکارا دلانے کا ایک ذریعہ بھی بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ جب بہت مغموم ہوتے ہیں یا حالات سے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں تو سنگیت کا سہارا لیتے ہیں ۔1992 ءمیں ایک وقت ایسا آیا کہ میں ڈپریشن کا شکار ہوگیا۔ امریکی ڈاکٹر اور ہندوستان کے ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ آپ پوری زندگی دواو¿ں کے سہارے گزاریں گے۔ تب ہی میں نے فلموں میں دیکھے گئے مناظر سے سبق لیتے ہوئے سنگیت کو اپنی دنیا میں داخل کیا اور اس کے سہارے اپنا علاج شروع کیا ۔دھیرے دھیرے مجھ میں تبدیلی آتی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ میں ڈپریشن سے باہر ہوکر مکمل صحت مند ہوگیا۔ وہی ڈاکٹر جنہوں نے مجھے مایوس کیا تھا، وہ میری حالت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ سنگیت نے مجھے ایک نیا عزم دیا۔معلوم ہوا کہ سنگیت علاج کے طور پر بھی کام آتا ہے ۔اس کے علاوہ ان فلمی نغموں نے اردو کو پروان چڑھایا۔ سنگیت کے ذریعہ اردو نے پوری دنیا میں خود کو منوایا ۔دنیا بھر کے لوگ ان نغموں کو سننے یا گنگنانے کی حسرت لئے بیٹھتے ہیں ۔ فلم انڈسٹری اردو شاعری پر زندہ ہے ۔ اگر کوئی فلم میں اردو نغمہ نہ ہو تو فلم فلاپ ہوجاتی ہے چاہے اس کی کہانی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔
٭سوال: اردو نیوز کے توسط سے آپ لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: اردو نیوز کے حوالے سے میں یہی کہوںگا کہ جتنے بھی تارکین وطن مملکت میں مقیم ہیں وہ اس قیام کو دائمی نہ سمجھیں بلکہ خود کوکرائے دار کی حیثیت سے مقیم سمجھیں اور اپنے ذاتی مکان یعنی وطن عزیز کو جانے کا ارمان ہر وقت دل میں رکھیں تاکہ جب جانا پڑے تو ہم ٹوٹ یا بکھرنہ جائیں ۔ یہاں کا قیام عارضی ہے ۔ میں یہ بھی کہوںگا کہ مملکت سعودی عرب نے ہمیں بہت کچھ دیا ۔ہماری معاشی ، دینی اور سماجی صلاحیتوں کو جلا بخشی اور ہمیں تونگر بنایا ہم اس ملک کا احسان کبھی نہیں بھولیں گے ۔حرمین شریفین کے باعث ہمیں اس ملک سے بے پناہ محبت ہے۔ ہم نے اس ملک کی حرمت اور اس کی بقا کیلئے اپنا تن ، من دھن سب لگادیا،ہم اس کے لئے اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔میں نے حرمین شریفین کو آج سے 40 پہلے کچھ اور رنگ میں دیکھا تھالیکن آج، ماشاءاللہ، ان کی وسعت ، رونقیں اور غیر معمولی انتظامات کو دیکھتے ہوئے خادم حرمین شریفین اور حکومت سعودی عرب کیلئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔اس موقع پر میں تمام قارئین اردو نیوز اوراپنے کرم فرما ﺅں، رفقاء اور عزیز و اقارب کا بھی شکریہ ادا کروںگا کہ انہوں نے ان 40 سالوں میں مجھے بہت پیار ، محبت اور عزت سے نواز جس کیلئے میںتمام احباب کا مشکور ہوں ۔اردو نیوز نے بھی مجھے بارہا شائع کرکے میرے فن اور شخصیت کو ابھارا جس کیلئے میں ان کا ممنون ہوں ۔