انڈیا کی ریاست اُترپردیش کے مشرق میں امروہہ کوئی بہت بڑا شہر نہیں ہے، دو لاکھ کے لگ بھگ آبادی ہو گی مگر اس شہر کا ذکر ہو تو جون ایلیا، رئیس امروہوی، صادقین سمیت کئی شخصیات کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے جن میں سے ایک کمال امروہوی بھی ہیں۔ ایک کامیاب فلم ساز، مکالمہ نویس اور ہدایت کار، جن کے ذکر کے بغیر بالی وُڈ کے ایک پورے عہد کا ذکر ادھورا رہے گا۔
کمال امروہوی امروہہ کے ایک نمایاں علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے پڑدادا امیر حسن امیر قادرالکلام شاعر تھے، جنہوں نے فارسی کے معروف شاعر ملا واعظ حسین کاشفی کی تخلیق ’روضۃ الشہدا‘ کا اُردو زبان میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے منظوم حصے کا منظوم اور نثر کے حصے کا نثر میں ہی ترجمہ کیا۔
مزید پڑھیں
-
ششی کپور، جن کا فن ہی اُن کا دوسرا جنم ہےNode ID: 844806
-
عرفان خان جو فلم میں ’کردار ایڈٹ ہو جانے پر ساری رات روتے رہے‘Node ID: 884038
-
کے ایل سہگل، جن سے لتا منگیشکر ’شادی کرنا چاہتی تھیں‘Node ID: 884581
کمال امروہوی کے دادا نصیر حسن نصیر بھی شاعر تھے۔ اُن کے چار فرزند تھے جن میں سے ایک انیس حسن ہلال بھی تھے جو کمال امروہوی کے والد تھے۔ اُن کے ایک اور فرزند شفیق حسن ایلیا اُردو زبان کے بے مثل شاعر اور انشائیہ پرداز جون ایلیا اور رئیس امروہوی کے والد تھے۔
کمال امروہوی 17 جنوری 1917 کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ نام امیر حیدر نقوی تھا، مگر باپ دادا کی طرح بچپن سے ہی شاعری شروع کر دی تو والد کے تخلص ’ہلال‘ کے ہم قافیہ لفظ ’کمال‘ کو بطور تخلص منتخب کیا اور یوں امیر حیدر کمال امروہوی بن گئے مگر شہرت اُن کو کمال امروہوی کے نام سے حاصل ہوئی۔
کمال امروہوی تھے تو امروہہ کے مگر اُن کی زندگی کا بیان لاہور کے بغیر ادھورا رہے گا۔ شرارتی تھے تو باپ سے ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوتی تھی چنانچہ انہی دنوں کسی بات پر ناراض ہو کر لاہور آ گئے۔ مشکل یہ تھی کہ گھر والوں کی مالی مدد تو اب حاصل نہیں کر سکتے تھے تو اُردو زبان کے جرائد کے لیے افسانے لکھنے لگے اور ساتھ ہی اورینٹل کالج میں داخلہ لے لیا اور فارسی اور اُردو میں گریجویشن کی۔
کمال امروہوی اس دوران لاہور کے ماہنامہ ’تاج‘ کے مدیر بھی رہے۔ یہ خالص ادبی جریدہ تھے جس کے بعد وہ دہلی کے معروف ادبی جریدے ’ساقی‘ اور ڈائجسٹ ’خلاصہ صرف و نحو‘ کے مدیر بھی رہے جو اُن دنوں صحافیوں اور ادیبوں میں بہت مقبول تھا تو یوں ادبی اور صحافتی حلقوں میں کمال امروہوی بہت جلد مشہور ہو گئے۔
یہ لیجنڈ گلوکار کے ایل سہگل تھے جو کمال امروہوی کو اپنے ساتھ بمبئی (موجودہ ممبئی) لے آئے اور سہراب مودی کے فلم سٹوڈیو ’موی سٹون‘ میں ملازمت دلوا دی، جہاں اُن کی بطور مکالمہ نگار اور نغمہ نگار پہلی فلم ’جیلر‘ تھی۔ دوسری فلم ’پکار‘ مغل شہنشاہ جہانگیر کی زیست کا احاطہ کرتی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/February/42951/2025/56886.jpg)
کچھ جملے ہماری زندگی میں اس طرح رَچ بس جاتے ہیں کہ ہم انہیں اپنی زندگی کا حصہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ ایک ایسا ہی جملہ ’انقلاب زندہ باد‘ ہے جو مقبولِ عام نعرہ ہے تو یہ ہم تک ایسے ہی نہیں پہنچا یا بھگت سنگھ اس کے خالق نہیں تھے بلکہ یہ نعرہ سنہ 1921 میں مولانا حسرت موہانی نے تخلیق کیا تھا جس کا آنے والے وقتوں میں بہت زیادہ استعمال ہوا۔
آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہو گا، ’با ادب با ملاحظہ ہوشیار‘ تو یہ جملہ کمال امروہوی کی تخلیق تھا جو پہلی بار اسی فلم میں استعمال ہوا تھا جس کے بعد انہوں نے کئی فلموں کے مکالمے لکھے جن میں معروف ہدایت کار اے آر کاردار کی سنہ 1946 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شاہجہاں‘ بھی شامل ہے۔
کمال امروہوی نے سنہ 1949 میں فلم ’محل‘ کے ذریعے بطور ہدایت کار اپنا ڈیبیو کیا۔ یہ بالی وُڈ کی پہلی ہارر فلم قرار دی جاتی ہے جو زبردست کامیاب رہی۔ اس فلم میں اشوک کمار اور مدھو بالا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
انڈین نیوز ایپ ’ای ٹی وی بھارت‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کمال امروہوی اور مینا کماری کی ملاقات سنہ 1952 میں ریلیز ہونے والی فلم ’تماشا‘ کی شوٹنگ کے دوران لیجنڈ اداکار اشوک کمار کے توسط سے ہوئی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے اور اسی برس شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
رپورٹ کے مطابق ’امروہوی کے دوست باقر علی اور مینا کماری کی بہن مدھو ہی اس بارے میں آگاہ تھے۔ ان دونوں نے بعدازاں سنہ 1953 میں فلم ’دائرہ‘ میں کام کیا جس میں ان کی پریم کہانی کا ذکر ملتا ہے مگر یہ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام رہی۔‘
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ ملکہ جذبات مینا کماری کا اصل نام ماہ جبیں بانو تھا اور انہوں نے بطور چائلڈ سٹار اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا اور جب اُن کی کمال امروہوی سے ملاقات ہوئی تو وہ ایک اداکارہ کے طور پر اپنی پہچان بنا چکی تھیں۔ مینا کماری شاعرہ بھی تھیں اور ’ناز‘ تخلص کیا کرتی تھیں۔
![](/sites/default/files/pictures/February/42951/2025/screenshot_2025-02-10_205113_0.png)
یہ بالی وُڈ کی ایک ایسی المیہ پریم کہانی کا آغاز تھا جس نے ملکہ جذبات مینا کماری کی دُکھوں سے عبارت زندگی میں ایک اور تلخ باب کا اضافہ کیا جس کا آغاز اُس وقت ہو گیا تھا جب اُن کی پیدائش کے وقت اُن کے والد اُن کو ہسپتال چھوڑ کر چلے گئے تھے کیوںکہ اُن کے پاس ڈاکٹر کو ادا کرنے کے لیے رقم نہیں تھی۔ یہ تو کچھ گھنٹوں بعد اپنی غلطی کا احساس ہونے پر وہ واپس لوٹ آئے مگر مینا کماری کے لیے تلخیوں سے عبارت زندگی کا آغاز ہو چکا تھا۔
مصنف ونود مہتا اداکارہ کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ لمحہ اُن کے لاشعور میں بس گیا تھا۔ اُن کی زندگیوں میں المیوں کا ہونا فطری تھا۔ وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتی تھیں۔ زندگی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ تکلیف سہیں گی۔ وہ خوش قسمت تھیں کہ اُن کی یہ اداسی اُن کے کرداروں میں سراہی گئی۔ وہ اس احساس کو بخوبی سمجھتی تھیں۔‘
یہ ذکر کرنا اہم ہے کہ کمال امروہوی اور مینا کماری میں صرف عمروں کا ہی فرق نہیں تھا بلکہ کمال امروہوی پہلے سے دو شادیاں کر چکے تھے اور اُن کے تین بچے تھے چناںچہ اس پریم کہانی کا آغاز ہی کچھ یوں ہوا جس کا اختتام غالباً پہلے سے طے شدہ تھا۔
فلم فیئر میگزین کے لیے فرحانہ فاروق لکھتی ہیں کہ ’19 برس کی مینا کماری نے جب 34 برس کے مصنف و ہدایت کار کمال امروہی سے شادی کی، تو یہ ایک گرو اور چیلے کا بندھن تھا۔ ایک شاندار جنون حقیقت میں اپنی تکمیل پا چکا تھا۔ مگر یہ پریوں جیسی کہانی جلد ہی اختلافات میں الجھ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ’گُرو‘ مبینہ طور پر ’ظالم‘ بن گیا اور مینا کماری، جو سانحوں کے لیے ہی تراشی گئی تھیں، اپنی گہری خاموشی سے ان افواہوں کو ہوا دیتی رہیں۔‘
سنہ 1958 میں کمال امروہوی اپنی تیسری فلم ’پاکیزہ‘ پر کام کرنے سے قبل کئی اہم فلموں کے لیے مکالمے لکھ چکے تھے جن میں ’مغلِ اعظم‘ نمایاں ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/February/42951/2025/screenshot_2025-02-10_205857.png)
ہدایت کار کے آصف کی اس عہد ساز فلم کے مکالمے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ کمال امروہی کے طرز نگارش کا لطف لینا ہو تو اس فلم کو ضرور دیکھیے جس کی ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے،
’میں ہندستان ہوں، ہمالیہ میری سرحدوں کا نگہبان ہے۔ گنگا میری پویتروتا کی سوگندھ، تاریخ کی ابتدا سے میں اندھیروں اور اجالوں کا ساتھی ہوں۔ میری خاک پر سنگ مرمر کی چادروں میں لپٹی ہوئی یہ عمارتیں دنیا سے کہہ رہی ہیں کہ ظالموں نے مجھے لوٹا اور مہربانوں نے مجھے سنوارا۔ نادانوں نے مجھے زنجیریں پہنا دیں اور میرے چاہنے والوں نے انہیں کاٹ پھینکا۔‘
بعدازاں جب ’پاکیزہ‘ کی شوٹنگ کا آغاز ہوا تو اُس وقت کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ اس فلم کے مکمل ہونے میں 15 برس کا طویل عرصہ لگ جائے گا۔
اس سے قبل ان دونوں کی پریم کہانی پر بنی فلم ’دائرہ‘ ناکام رہی تھی اور کمال امروہوی اس دھچکے سے سنبھل نہیں پائے تھے تو انہیں اب صرف مینا کماری سے اپنی محبت کا اظہار ہی نہیں کرنا تھا بلکہ اپنا ڈوبتا ہوا کیریئر بھی بچانا تھا تو یوں اس فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی۔
یہ بلیک اینڈ وائٹ کا زمانہ تھا مگر بعد میں یہ فلم کلر میں بنانے کا فیصلہ ہوا۔ فلم میں مینا کماری، اشوک کمار اور راج کمار مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔
طوائفوں کی طرزِ زندگی پر بنائی گئی بالی وُڈ کی چند اہم ترین فلموں میں سے ایک ’پاکیزہ‘ مگر اس وقت التوا کا شکار ہو گئی جب مینا اور کمال کے تعلقات خراب ہونا شروع ہوئے اور یوں دونوں کے راستے الگ ہو گئے۔ مینا کماری نے مے نوشی میں پناہ لی تو یوں فلم کی شوٹنگ پانچ برسوں کے لیے التوا کا شکار ہو گئی۔
مسئلہ یہ تھا کہ فلم کا اہم ترین ’صاحب جان‘ کا کردار مینا کماری سے بہتر کوئی اور ادا نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ یہ لکھا ہی اُن کو سامنے رکھ کر گیا تھا۔ فلم کی شوٹنگ کے دوران اس فلم کے جرمن سنیماٹو گرافر جوزف ورشنگ سنہ 1967 اور موسیقار غلام محمد سنہ 1968 میں یہ فلم مکمل ہونے سے قبل ہی چل بسے۔
![](/sites/default/files/pictures/February/42951/2025/3fba9c1cdf684a099795fb125d645119b8a5fd89.jpg)
بہت سی تبدیلیوں اور تاخیر کے بعد یہ فلم بالآخر نومبر 1971 میں مکمل ہو گئی مگر مسئلہ یہ ہوا کہ پاکستان اور انڈیا جنگ کے باعث فلم ایک بار پھر التوا کا شکار ہو گئی۔
کمال امروہوی بہرحال فلم سازی کی باریکیوں کا گہرا درک رکھتے تھے تو انہوں نے فلم کی پروڈکشن میں التوا کے باوجود کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جیسے کہ فلم کے موسیقار غلام محمد ایک گمنام موسیقار تھے جنہوں نے فلم ’مرزا غالب‘ میں اپنی موسیقی کے ذریعے کمال امروہوی کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
یہ فلم جب تاخیر کا شکار ہوئی اور غلام محمد وفات پا گئے تو اُس وقت ہندی فلمی سنگیت تبدیلی کے عمل سے گزر رہا تھا، جس پر فلم کے تقسیم کاروں نے کمال امروہوی کو فلم کی موسیقی تبدیل کرنے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اس حوالے سے کسی کی نہ سنی اور اپنی ضد پر اڑے رہے اور فلم کے ایک الاپ کے علاوہ غلام محمد کی موسیقی ہی فلم میں استعمال ہوئی جو آج بھی کانوں میں رَس گھولتی ہے۔
ناقدین کے لیے فلم کے پریویو کا اہتمام کیا گیا تو اُن کی جانب سے اس پر ظاہر کیا گیا ردِعمل کوئی خاص نہیں تھا۔ مصنف میگھند ڈیسائی لکھتے ہیں کہ ’امروہوی پریشان تھے کیوںکہ فلم کی تعریف سے زیادہ تنقید ہوئی تھی اور وہ اس رات نشے میں دھت گھر لوٹے۔‘
یہ فلم مکمل کرنا مینا کماری کے لیے بھی آسان نہیں تھا جن کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی اور وہ عمر کے اُس حصے میں تھیں کہ اُن کے لیے ’صاحب جان‘ کے کردار کو ادا کرنا آسان نہیں تھا مگر یہ اُن کا جنون تھا کہ وہ جوش و ولولے سے فلم پر کام کرتی رہیں۔
فلم فیئر میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کمال امروہوی کے صاحب زادے تاجدار امروہوی نے کہا تھا کہ ’جب پاکیزہ کی شوٹنگ دوبارہ شروع ہوئی تو گانے ’موسم ہے عاشقانہ‘ کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ بابا نے اس گانے میں چھوٹی امی (مینا کماری) کو کُرتا اور لنگی پہنوائی کیوںکہ جگر کی بیماری کی وجہ سے اُن کا پیٹ پھولا ہوا تھا، بعد میں یہ ایک ٹرینڈ بن گیا۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/42951/2025/screenshot_2025-02-10_210537.png)
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’وہ صحت کی خرابی کے باعث بہت تھک جاتی تھیں لیکن جیسے ہی شوٹ شروع ہوتا تو وہ دوبارہ پرجوش ہو جاتیں۔ فلم کے آخری مجرے میں مینا کماری کو تیز تیز گھومتے ہوئے گر جانا تھا مگر ان کی صحت کی وجہ سے اُن کے کلوز اَپ بیٹھی ہوئی حالت میں ہی لیے گئے۔‘
فلم کے کچھ مناظر میں تو مینا کماری کے باڈی ڈبل کا بھی استعمال کیا گیا۔ مصنف میگھند ڈیسائی لکھتے ہیں کہ ’پاکیزہ کے آخر میں ایک مجرا ہے جو فلم کو کلائمیکس تک لے جاتا ہے۔ جب صاحب جان سلیم کی شادی پر مجرا کرتی ہیں ’آج ہم اپنی دعاؤں کا اثر دیکھیں گے، زخم جگر دیکھیں گے‘ تو اس مجرے میں اداکارہ پدما کھنہ کو بطور ڈبل استعمال کیا گیا تھا۔‘
یہ فلم فروری 1972 میں ریلیز ہوئی تو بہت زیادہ توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ یہ کامیاب ہو سکے گی مگر چند ہی ہفتوں بعد مارچ میں جب مینا کماری چل بسیں تو فلم بین اپنی پسندیدہ اداکارہ کو بڑی سکرین پر دیکھنے کے لیے جوق در جوق سنیما گھروں کا رُخ کرنے لگے اور یوں یہ اس سال کی کامیاب ترین فلم قرار پائی۔
’مغلِ اعظم‘ کو دیکھنے کی فرمائش اگر پاکستان کے سابق صدر ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی تو ’پاکیزہ‘ دیکھنے کی خواہش کا اظہار پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے کیا جو ان دنوں اپنے والد کے ساتھ انڈیا کے دورے پر گئی ہوئی تھیں جس سے اس فلم کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انڈیا کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل ’دوردرشن‘ پر جب یہ فلم نشر کی گئی تو لاہور کی گلیاں سنسان ہو گئی تھیں۔ اس فلم کے مکالموں کی بہت تعریف کی جاتی ہے مگر شاید یہ آج کے دور سے ہم آہنگ نہ ہوں اور مصنوعی محسوس ہوتے ہوں جیسا کہ صاحب جان کا اپنے سامنے والے کوٹھے کی طوائف سے مکالمہ جو کچھ یوں ہے،
’کل ہم مجرے پر جا رہے ہیں، ہمیں ایک دن کے لیے تمہاری قسمت چاہیے، پرسوں واپس کر دیں گے۔‘
صاحب جان بے رُخی سے جواب دیتی ہے، ’ہاں ہاں ضرور لے جانا، پھر واپس مت کرنا۔‘
یا سلیم کا یہ مکالمہ جو وہ رات کی تاریکی میں صاحب جان کے نام ایک خط میں لکھتا ہے،
’آپ کے پائوں دیکھے، بہت حسین ہیں۔ انہیں زمین پر مت اتاریے گا۔ میلے ہو جائیں گے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/42951/2025/31.jpg)
اس فلم کے بعد سنہ 1983 میں فلم ’رضیہ سلطانہ‘ کمال امروہوی کی بطور ہدایت کار آخری فلم تھی جو کامیاب نہیں ہو سکی۔ انہوں نے راجیش کھنہ اور راکھی گلزار کے ساتھ فلم ’مجنوں‘ پر بھی کام شروع کیا جو ریلیز نہیں ہوئی۔
کمال امروہوی آج ہی کے روز 11 فروری 1993 میں چل بسے۔ اُن کو ممبئی کے مقامی قبرستان میں مینا کماری کے پہلو میں سپردِخاک کیا گیا۔ اُن کی وفات پر جون ایلیا نے ایک طویل شخصی مرثیہ لکھا جس کا پہلا شعر کچھ یوں ہے؛
’جس کی ہر بات کمال کی بات
کیا کہوں ایسے باکمال کی بات‘
کمال اور مینا کی محبت کی اس داستان کو فلمانے کی تیاری کی جا چکی ہے اور ویب سیریز ’مہاراج‘ کے ہدایت کار سدھارتھ پی ملہوترا ’کمال اور مینا‘ کے نام سے یہ فلم بنانے جا رہے ہیں جو یقیناً شائقینِ فلم کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی جس میں اپنے عہد کے دو بڑے فن کاروں کی المیہ پریم کہانی کو بڑے پردے پر پیش کیا جائے گا۔
’پاکیزہ‘ ایک خواب تھا جو کمال اور مینا نے مل کر دیکھا تھا اور وہ اس کی تعبیر پانے میں کامیاب رہے، حقیقت تو یہ ہے کہ اس فلم کو اگر کمال امروہوی کے فلمی کیریئر سے نکال دیا جائے تو یہ بے رنگ ہو جائے گا۔