سپریم کورٹ کا ایک اور بڑا فیصلہ
کراچی ( صلاح الدین حیدر) عوام نے جو کہ دھرنے اور بلاوجہ سڑکیں، شاہراہیں بند کرنے سے تنگ آچکے تھے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جس کے تحت واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ احتجاج اور اجتماع قانون کے دائرے میں ہی ہونے چاہئیں وہ بھی اس طرح کہ شہریوں کی ً نقل و حرکت متاثر نہ ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو سزا دی جائے تاکہ دوسروں کو نصیحت ہو۔فیصلہ گو کافی دیر بعد آیا لیکن عوام الناس نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ کراچی، لاہور اور بیشتر چھوٹے شہروں، سیالکوٹ، گوجرانوالہ میں بھی لوگوں نے نعشیں سڑک پر رکھ کر لوگوں کی آمد و رفت میں خلل ڈالنے کو معمول بنالیا تھا۔ کراچی اور لاہور جیسے شہر کی کسی شاہراہ کو بند کرنے کا مطالبہ پورے شہر کو سزا دینے کے مترادف ہے۔ ٹریفک جام ہوجاتا ہے اور بچے اسکول، نجی اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 2017ءمیں ہونے والے تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ دھرنا تحریک کے کارکنوں نے پہلے اسلام آباد کے قریب فیض آباد میں دھرنا دیا جسے اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے خوش آمد کر کے انہیں وہاں سے ہٹایا بعد میں اسی تنظیم نے لاہور کی سب سے بڑی شاہراہ مال روڈ پر صوبائی اسمبلی کے سامنے ایک اور دھرنا دیا جسے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے سختی سے منتشر کردیا۔ معاملہ عدالت میں گیا جس نے اب تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔حکومت ہو یا ادارے، قانون سب پر لاگو ہوتا ہے۔ کوئی ان سے مبرا نہیں۔ عدالت نے فیصلے میں تحریر کر کے لوگوں کو سکون پہنچایا۔ عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا کہ پیمرا براڈکاسٹر کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔منافرت کا فتویٰ دینے والوں کے خلاف انسداد دہشتگردی کی کارروائی ہونی چاہیے۔ مظاہرین سے نمٹنے کا ایک منصوبہ ہونا چاہیے۔ ہر شہری اور سیاسی جماعت کو قانون کے دائرے میں رہ کر اجتماع اور احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن دیگر شہریوں کی نقل و حرکت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ فیصلے کی نقول، وفاقی، صوبائی حکومتوں، مسلح افواج کے سربراہان، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، ایف آئی اے، انٹیلی جنس بیورو، سیکرٹری دفاع داخلہ، اطلاعات، چیف سیکرٹری اور اور صوبائی پولیس سربراہان کو دے دی گئیں تاکہ آئندہ عوام کی سہولتوں کا خاص طور پر خیال رکھا جاسکے۔