عرب چینلز پر غیر معیاری غیر ملکی فلموں کے انبار
ڈاکٹر جاسر الحربش ۔الجزیرہ
میرے ذہن میں ایک سوال گردش کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خلیج کے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کے سیٹلائٹ چینلز غیر ملکی فلموں کے انتخاب میں مخصوص پیمانوں کی پابندی کررہے ہیں؟
اصولی بات یہ ہے کہ غیر ملکی فلموں کے انتخاب کے سلسلے میں ہمارے مد نظر کچھ اہداف ہونے ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر ایسی فلموں کا انتخاب کیا جائے جن سے کوئی اخلاقی پیغام ناظرین کو ملتا ہو۔ ایسی فلمیں اختیار کی جائیں جو ناظرین میں انسانی احساس جگاتی ہوں۔ ایسی فلمیں حاصل کی جائیں جو ثقافتی اور تمدنی تنوع کی ترغیب دیتی ہیں۔ ایسی فلمیں حاصل کی جائیں جنہیں دیکھ کر فکر ونظر میں اضافہ ہوتا ہو اور وہ فلمیں آنکھوں کو بھلی لگتی ہوں اور تکنیکی اعتبار سے عمدہ ہوں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے تربیتی معیار کو بلند کرنے میں معاون ثابت ہوں۔
ذاتی طور پر میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتاہوں کہ میں نے عرب سیٹلائٹ چینل پر جو روس، جاپان، چین ، ایران ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کی فلمیں دیکھی ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کی بابت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ سعودی سیٹلائٹ چینلز نے انکا انتخاب معقول پیمانوں کو مدنظر رکھ کر کیا ہو۔ میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ مذکورہ ممالک سمیت دیگر ممالک میں منفرد قسم کی ٹی وی اور فلمی تخلیقات اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اکثر ناظرین مجھ سے اتفاق کریں گے کہ خلیجی سیٹلائٹ چینلز سب سے زیادہ امریکی فلموں اور پھر ترکی اور مصر کی فلموں کے عادی بن چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر فلمیں اخلاقی اور جسمانی جرائم کے اطراف گھومتی ہیں۔ یہ فلمیں تشدد اور ناجائز تعلقات کی کہانیوں کی اردگرد گھومتی ہے۔ ایسی فلمیں بھی دکھائی جارہی ہیں جن میں شمسی کہکشاں کے باہر کی تخیلاتی مخلوقات کو دکھایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا سعودی سیٹلائٹ چینلز میںغیر ملکی فلموں کا انتخاب کسی خفیہ پروگرام کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام غیر ملکی عملہ انجام دیتا ہے جس کا ہدف سعودی عوام کے اخلاق کو تہہ و بالا کرنا اور نئی نسل کو انحراف عبور کرنے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔ کیا انکا ہدف سعودی معاشرے میں ایکشن فلمیں دکھا کر تشدد کو رواج دینا ہے۔ کیا وہ انسانی مزاج ، اخلاق اور تمدن کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ کیا و ہ یہاں رجعت پسندی اور پسماندگی پھیلانے کے لئے کوشاں ہیں؟
تعطیلات کے دوران یورپی سیٹلائٹ چینل دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ وہاں برازیل ، افریقہ ، ایران ، چین اور جاپان کی فلمیں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ فن کے اعتبار سے انتہائی معیاری، فرحت بخش اور اعلیٰ اخلاق سے مالا مال ہوتی ہیں۔ میری آرزو ہے کہ کاش اس قسم کی فلمیں میرے وطن سعودی عرب میں بھی دیکھنے کو ملیں۔ سچی بات یہ ہے کہ سعودی سیٹلائٹ چینلز پر دکھائی جانے والی بیشتر فلمیں ان ممالک میں جہاں یہ تیار ہوتی ہیں کچرے کے ڈھیر سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔ یہ اپنے ممالک میں ناکام ہوچکی ہوتی ہیں اور انہیں عرب سیٹلائٹ چینلز کے ہاتھوں فروخت کردیا جاتا ہے۔ ان فلموں کی مثال گھٹیا سگریٹ جیسی ہے جو ہمارے یہاں بھیجی جارہی ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ میں اس بات کیلئے تیار ہوں کہ اگر میں غلطی پر ہوں تو کوئی صاحب بھی میری غلطی کی مدلل نشاندہی کردے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو اور یقینا ہمارے یہاں دکھائی جانے والی فلموں سے متعلق میری رائے سے مختلف رائے پیش کرنا ممکن نہیں ہوگاتو میں متعلقہ حکام سے آرزو کرونگا کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو درآمدی گھٹیا فلموں کی آلودگی سے بچائیں اور جان بوجھ کر اخلاقی خرابی پیدا کرنے کے ذمہ دار عناصر کا احتساب کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭