پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں شاید ہی کبھی ایسے موڑ آئے ہوں جنھیں تلخی تو نہیں لیکن کسی حد تک سرد مہری کہا جا سکتا ہے تاہم اس کیفیت نے کبھی بھی طول نہیں پکڑا۔
یمن کی جنگ
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ گرمجوشی کے ماحول سے پہلے مارچ سال دو ہزار پندرہ میں دونوں ممالک میں فاصلہ پیدا ہونے کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں جب سعودی عرب کی قیادت میں قائم اتحاد کی جانب سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ شروع کی۔
یمن میں فضائی کارروائیوں سے چند پہلے سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے کہا تھا کہ ضرورت پڑنے پر پاکستان یمن کی جنگ میں حصہ لینے پر تیار ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے یہ بیان جاری ہونے سے پہلے ہی پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی حکومت کو یمن کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی تلقین کر رہی تھی لیکن اس بیان کے بعد ایسے مطالبات میں شدت آ گئی۔
یمن میں جنگ شروع ہونے کے بعد پاکستان کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے سعودی عرب کے دورے بھی کیے اور اعلان کیا گیا کہ یمن کے تنازعے میں پاکستان کے کردار کا تعین پاکستان کی پارلیمان میں کیا جائے گا۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں تقریباً پانچ دن تک ہونے والی بحث کے بعد دس جولائی 2015 کو گیارہ نکاتی متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اس تنازعے میں غیر جانبدار رہتے ہوئے معاملے کے پرامن حل کی کوششیں جاری رکھے گا۔
پارلیمان کے اس فیصلے بعد بھی پاکستان کی اعلیٰ فوجی اور سول قیادت نے سعودی عرب کے دورے کیے اور ایک موقعے پر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلے سعودی عرب اور وہاں سے ایران بھی گئے۔
جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف اسلامی اتحاد کے سربراہ
یمن کی جنگ میں پاکستان کے ممکنہ کردار کے بعد سعودی عرب کا نام مقامی ذرائع ابلاغ میں اس وقت تواتر سے لیا جانے لگا جب جنرل راحیل شریف کو فوج کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد سعودی عرب کی قیادت میں 39 مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کی قیادت سونپی گئی۔
اس موقع پر حزب اختلاف اور سول سوسائٹی کی جانب سے ملکی خارجہ پالیسی کے بارے میں اس اتحاد کے قواعد و ضوابط کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا اور اس وقت حزب اختلاف میں موجود تحریک انصاف نے حکومت سے وضاحت طلب کی تھی کہ کس بنیاد پر جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو اسلامی افواج کے اتحاد کی کمان سونپی گئی۔
اسی وجہ سے حکومت کی جانب سے سابق آرمی چیف کو این او سی جاری کرنے کا معاملہ طول پکڑتا گیا اور ایک برس کے وقفے کے بعد تحریک انصاف حکومت میں آئی تو اس نے جنرل ( ر) شریف کو این او سی جاری کیا۔
تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد تعلقات کا نیا دور
تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ستمبر 2018 میں اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا اور اس دورے کے بعد گرمجوشی کا ایک نیا باب شروع ہوا جس سے واپسی پر حکومت عہدیداروں نے بتایا کہ سعودی عرب کو چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا تیسرا سٹریٹیجک شراکت دار بنایا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے اگرچہ اس کے بعد وضاحت کی کی گئی کہ سعودی عرب سی پیک کا باقاعدہ شراکت دار نہیں ہو گا بلکہ ایگ فریم ورک کے ذریعے سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔
حکومتی اعلان کے بعد اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سعودی عرب کے ایک اعلیٰ وفد نے پاکستان کا دورہ بھی کیا جس کے دوران وفد گوادر بھی گیا جس کے بارے میں مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ دورے میں وہاں تیل صاف کرنے والا کارخانہ لگانے کے حوالے سے جائزہ لیا گیا۔
سعوی عرب کا بیل آؤٹ پیکیج
اس کے دورے کے بعد اکتوبر میں وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دوسرا دورہ کیا اور اس دوران سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو تین ارب ڈالر اور موخر ادائیگیوں پر تیل فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
سعودی عرب کی جانب سے معاشی مشکلات سے دوچار پاکستان کو اپنی بیرونی ادائیگوں میں حائل مسائل کو کم کرنے میں مدد ملی جس کا وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کے دورے سے واپسی پر اعتراف کیا اور ساتھ پاکستان کے اس پرانے موقف کو بھی دوہرایا کہ ان کا ملک یمن کے تنازعے میں ثالثی کے لیے تیار ہے۔
اب سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ہفتے کو پاکستان کے دورے پر پہنچ رہے ہیں جس کے دوران سرمایہ کاری اور دیگر مختلف شعبوں میں تعاون کے سمجھوتے طے پانے کا امکان ہے جس میں سب کی نظریں گوادر میں اربوں ڈالر کی لاگت سے تیل صاف کرنے والے کارخانے کے معاہدے پر ہو گی۔
پاکستان میں اور بیرونِ پاکستان ماہرین اس بات پر کم و بیش متفق ہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان روایتی گرمجوشی کے تناظر میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورۂ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔
اس کی دلیل ماہرین یہ دیتے ہیں کہ اس وقت خطے میں بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر اسلام آباد اپنی خِارجہ پالیسی کو وسعت دینے کا خواہاں ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اگر اس میں کامیابی ملتی ہے تو اس کا خطے کی سیاسی صورتِ حال پر بھی بہت اثر پڑے گا۔