Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج کے ہمارے سیاست داں۔۔!

***صلاح الدین حیدر***
ان گناہ گار آنکھوں نے کیسے کیسے تماشے، کیسے کیسے نظارے دیکھے کہ اُنہیں یاد کرکے دل بھر آتا ہے۔ بچپن گزرا، جوانی آئی، صحافتی دُنیا میں قدم رنجہ ہوئے چند برس ہی بیتے تھے کہ آئین اور قانون ساز پارلیمان کی کارروائیوں کو دیکھنے کا موقع ملا، کیا خوبصورت ماحول ہوتا تھا، کیا شعلہ بیانی ہوتی تھی، نواب زادہ نصراﷲ خان، حسین شہید سہروردی، ایوب خان کے بڑے بھائی سردار بہادر خان، سر ظفر اﷲ خان، علی احمد کے بروہی۔ تقاریر ہوتی تھیں کہ دل چیر کر رکھ دیں، علم و ادب سے مرصع، دلائل ایک سے بڑھ کے ایک، پر افسوس بقول غالب: ’’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں۔‘‘ اب کہاں وہ دن، وہ علم و فضائل کے بیش بہا خزانے۔ اب تو پارلیمان کھلواڑ ہوگئی، اقدار کی دھجیاں اُڑا دی گئیں۔ تہذیب، ادب، آداب خواب ہوگئے۔ صرف گالم گلوچ، بدزبانی، بدکلامی ہی رہ گئی۔
سیاست عوامی فلاح بہبود کا دوسرا نام ہے، اب تو صرف نجی تجوریاں بھرنے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ غلطیاں تو پاکستان بننے کے بعد بھی ہوتی رہیں، لیکن لوٹ کھسوٹ کا بازار شاید اُس وقت بھی تھا، لیکن شرم و حیا کے خوف سے لوگ اُن چیزوں سے کنارہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اب تو سب کچھ ختم ہوگیا۔ تباہی و بربادی قوم کا مقدر بن گئی، حرام اور حلال کی تمیز کا نام و نشان مٹ گیا، مگر رونے دھونے سے فائدہ…؟ بس تماشائے اہل کرم ہی دیکھتے جائیے، اسی میں عافیت ہے، زبان کھولیں گے تو راندۂ درگاہ، جیل کی سلاخیں، یا پھر ملک بدری۔
ایسے لوگ پھر بھی ابھی باقی ہیں جو سچ کہنے سے نہیں گھبراتے، شاید تھوڑی بہت اچھائی اس دُنیا میں اُنہی سے قائم ہے۔ ایوب خان کا مارشل لا لگا تو بھی شرافت، دیانت قائم و دائم تھی، بدعنوانیوں کا سلسلہ ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب سے شروع ہوا جب امریکن جنرل موٹر کمپنی کو زورِ بازو کے بل بوتے پر خرید لیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ آیا تو رشوت ستانی تو خیر دُور کی بات تھی، لیکن بھٹو ہی کا جملہ ’’Elected despotism‘‘ خود اُن پر ہی لاگو آتا ہے۔ جمہوری انتخابات کے نتیجے میں مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے، لیکن جمہوریت کا گلا اپنے ہی ہاتھوں سے گھونٹ دیا۔ پریس پر پابندیاں عائد کردی گئیں، سچ بولنے پر اپنے قریبی دوست جے اے رحیم کو سبق سِکھانے کا حکم اُس وقت کے پولیس افسر کو صادر فرمادیا۔ اُن کے پنجاب کے وزیر عبدالحفیظ کاردار نے صحافیوں کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا کیا کہ کیمپ کو اُکھاڑ پھینکا گیا اور کاردار کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تاریخ کا سیاہ باب وہیں سے شروع ہوا اور آج تو پوری تاریخ ہی مسخ ہوچکی ہے۔پیپلز پارٹی عمران خان کو ہٹانے کی ترکیبیں سوچ رہی ہے، بلاول بھٹو تو خیر آج کل امریکہ اور یورپ کے دورے پر ہیں، لیکن اُن کے والد آصف زرداری نے خورشید شاہ کو حکم دیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پبلک اکائونٹس کمیٹی سے نہیں ہٹائے جائیں گے۔ زرداری صاحب اپنے تمام کارنامے بھول گئے، آج جمہوریت کے بہت بڑے چیمپیئن ہیں، کیا اُنہیں یاد دلایا جائے کہ جب وہ بے نظیر کے دورِ حکومت میں وزیر تھے، تو شیخ زید کا تحفے میں دیا سگریٹ لائٹر (جو سونے کا بنا ہوا تھا) وہ ایک ہیلی کاپٹر میں بھول گئے۔ اُنہوں نے آسمان سر پر اُٹھالیا اور اُس وقت کے پائلٹ، سابق کرنل کو حکم دیا کہ فوری طور پر اُسے تلاش کرکے اُن کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ بھٹو کے نام کو استعمال کرنے والوں کو شاید معلوم نہیں تھا کہ صدور مملکت اور بیرونی ممالک کے سربراہان کے تحفے تحائف قومی خزانے جسے عرف عام میں توشہ خانہ کہا جاتا ہے میں جمع کردیا جاتا ہے۔موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دورۂ سعودی عرب میں شاہی خاندان کی طرف سے 68 لاکھ اور کئی ہزار روپے کے تحفے، جس میں طلائی گھڑی، سگریٹ لائٹر اور دو ایک اور چیزیں ملیں، اُنہوں نے توشہ خانے میں جمع کروادیں۔ یہ ہوتی ہے دیانت اور اصول پرستی۔ کاش زرداری صاحب لالچ کے فریب سے نکل سکنے کی اہلیت رکھتے۔ اُنہوں نے ہی بے نظیر کو پیسہ کمانے پر لگایا، دلیل یہ دی کہ نواز شریف پیسے کی بنیاد پر الیکشن جیتتا ہے، تمہیں بھی ایسا کرنا چاہیے، ورنہ بھٹو خاندان ان بُرائیوں سے مبّرا تھا۔
عمران خان اور کابینہ اب نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ شہباز شریف جن پر کئی ایک مقدمات قائم ہیں اور نیب کی قید میں ہیں، پبلک اکائونٹس جیسی اہم کمیٹی کے سربراہ کس طرح بن سکتے ہیں۔ عمران کو آج کہنا پڑ رہا ہے کہ اُن کے پیشرو اگر ملک کو قرضوں کی دلدل میں نہ چھوڑتے تو حج بھی مفت کروایا جاسکتا تھا، گیس کی قیمتیں بھی نہ بڑھتیں، مہنگائی کے جن کو بھی بوتل میں بند کردیا جاتا۔ عوام کو سہولتیں میسر ہوتیں، لیکن کاش اب تو چڑیاں چگ گئیں کھیت، اب پچھتانے سے فائدہ؟
کوشش کرکے مشکلات دُور کی جائیں، تاکہ عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی دُور ہوسکے اور عمران پر بھی تنقید کے نشتر نہ برسیں۔ خود ہی خیال کریں کہ تنقید کون کرتا ہے، نفیسہ شاہ جو زرداری کی ناجائز دولت کے بارے میں کچھ کہنے سے بھی خوف کھاتی ہیں، مریم اورنگزیب جنہیں ساری بُرائیاں عمران خان میں نظر آتی ہیں، صرف اُن سے یہ پوچھ لیا جائے کہ ایک نرس خاتون اتنی امیر کیسے بن گئیں۔ اس کا جواب بھی دے دیں، شاید اُن کے لیے ممکن نہیں ہوگا، اس لیے کہ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت ہی نہیں۔ سیاست کھلونا بن کر رہ گئی ہے، اگر عمران اسمبلی میں کم جاتے ہیں تو مریم اورنگزیب ہی بتادیں کہ اُن کے قائد نواز شریف نے قومی اسمبلی کو کتنی اہمیت دی۔ عمران نے تو وزیراعظم ہائوس کا خرچہ 30 فیصد کم کردیا ہے، لیکن اُن کے گورنر اور وزرا صاحبان ابھی تک لمبی لمبی گاڑیوں کی قطاروں کے پروٹوکول ختم کرنے سے قاصر ہیں، کاش وہ اپنے لیڈر کی ہدایت پر عمل کرلیتے۔
بہرحال ہر رات کے بعد صبح ضرور ہوتی ہے، یہ قانونِ فطرت ہے۔ میری ایک جاننے والی شاعرہ کے مطابق 
کبھی تو شب کے اندھیرے میں وہ قمر نکلے
 کہ جس کا نور سحر کا پیام ہوجائے
اُمید پر دُنیا قائم ہے، صبح ضرور ہوگی۔
 

شیئر: