آپ بھی لکھئے
جمعرات 21 فروری 2019 3:00
پتہ نہیں جھاڑو کا لفظ کیسے اور کب معرض وجود میں آیا۔ مغل حکمراں اسے جاروب کہا کرتے تھے مطلب وہی ایک تھا یعنی صفائی ستھرائی کے کاموں میں استعمال ہونے والی چیز تاہم مغل حکمرانوں کو کسی بھی گلیمر یا کسی بھی طریقے سے کسی جگہ یا خزانے میں جھاڑو پھیرنا نہیںآتا تھا۔ پھر ایک دور ایسا آیا کہ گردش روزگار کی اس کروٹ کے نتیجے میں دہلی اور لاہور جیسے شہروں میں بھی اچھے خاصے خاندانوں کو نان و نمک کا محتاج بن جانا پڑا۔ وہ چھوٹے ا ور ناپسندیدہ قسم کے کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ سابق حکمرانوں کے بعد ان کے حاشیہ بردار مقامی لوگ مقتدر بن گئے یعنی وہی ہوا کہ :
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
جب سارے متاع غرور پر جھاڑوپھر ہی گئی تو انہیں باقاعدہ جھاڑو پکڑ کر صفائی یا ستھرائی کرنے میں بھی کوئی عار نہ رہا۔ لوگ محتاج سے محتاج تر اور ضرورت مند سے ضرورت مند تر ہوتے گئے۔ عورتیں بھی اس خراب صورتحال میں گھر کا خرچ چلانے والے مردوں کے شانہ بشانہ ہر قسم کا کام کرنے لگیں۔ جن میں جھاڑو دینا اور صفائی کا کام کرنا شامل ہے مگر قابل تعریف ہیں یہ محنتی عورتیں جو چوری چکاری میں پڑنے کے بجائے محنت مزدوری کو شعار بنائے رہیں۔ جھاڑو اٹھائے جگہوں اور صفائی کا کام کرنے والے یہ لوگ دیانت دار اور مخلص ہیں اور انکی دیانت اور اخلاص کا انہیں زمانے نے جو صلہ دیا وہ یہ ہے کہ آئے دن کہیں نہ کہیں ان غریبوں کی معمولی سے معمولی خوشیو ں پر بھی جھاڑو پھیر دی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭