الزامات پر ہی اکتفا کیا جاتا رہے گا تو نتیجہ صفر ہی ہوگا، مذاکرات ضروری ہیں،معاملے کی تہہ تک پہنچاجائے کہ آخر اتنا بڑا سانحہ رونما کیوں ہوا؟
صلاح الدین حیدر
کشمیر کی تحصیل پلوامہ میں 14 فروری کو 49 ہندوستانی فوجی ہلاک ہونے پر ہند نے ایک مرتبہ پھر بلاسوچے سمجھے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرادیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچتا کہ آخر اتنا بڑا سانحہ رونما کیوں ہوا۔ عقل مندی سے کام لیا جاتا تو حقائق تک پہنچنے میں پوری طرح نہ سہی، کسی حد تک تو مدد مل سکتی تھی، وجوہ کا سرا مل جائے تو معلومات میں اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن جہاں ہوش کے بجائے جوش سے کام لیا جائے وہاں نتائج کبھی بھی تسلی بخش نہیں ہوتے، یہ قدرت کا قانون ہے۔
پاکستان کو بھی اس حملے سے شدید صدمہ پہنچا، لیکن جیسے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں وعدہ کیا کہ ہندہمیں شواہد پیش کرے، پورے حالات سے باخبر رکھے، ہم اس بات کا کھوج لگائیں گے کہ اگر کوئی پاکستانی اس میں ملوث ہے تو اُسے گرفتار کرکے مقدمہ چلائیں، لیکن محض باتیں ہی کی جاتی رہیں گی، الزامات پر ہی اکتفا کیا جاتا رہے گا تو نتیجہ صفر ہی ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ ہند پاکستان کو تمام حالات و واقعات کی تفاصیل سے آگاہ کرے، تاکہ ہم بھی دہشت گردوں کی تلاش کریں۔
عمران خان کی یہ پیشکش پاکستان اور خود وزیراعظم کی امن کی خواہشات کا برملا اظہار تھا، لیکن کاش ایسا ہوتا۔ ہند اور اُس کی موجودہ حکومت تو طاقت کے نشے میں چُور نظر آتی ہے، وزیراعظم نریندر مودی پر پہلے بھی گجرات میں مسلم کُش فسادات کا الزام ہے۔ اس قتل و غارت گری کی کوئی تفتیش نہیں ہوئی، آج پھر وہی ڈرامہ دہرایا جارہا ہے۔ الزام تراشی تو بہت آسان ہے وہ بھی ایسے وقت میں جب برسراقتدار بی جے پی 5ریاستوں میں انتخابات ہار چکی ہے اور اب چُنائو کے دوسرے مرحلے میں اُسے شدید مخالفت کا سامنا ہے تو بہتر ہے کہ اندرونی مسائل سے توجہ ہٹاکر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جائے۔
افسوس تو یہی ہے کہ پڑوسی ملک کے سیاست داں، حکمران طبقہ، ہندوستانی میڈیا، یہاں تک کہ فلمی دُنیا بھی بپھری ہوئی ہے۔ ایک نہیں درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو عمران خان کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کرنے پاکستان کیا آگئے کہ اُن کے خلاف آگ بھڑک اُٹھی۔ کپل شرما کے ٹی وی پروگرام سے اُنہیں ہٹادیا گیا۔ نغمہ نگار، شاعر، ادیب جاوید اختر (جو عظیم شاعر جاں نثار اختر کے صاحب زادے ہیں) نے اپنی زوجۂ محترمہ، عظیم ہندوستانی فنکارہ اور مشہور شاعر کیفی اعظمی کی صاحبزادی شبانہ اعظمی کے ساتھ اپنا 24 فروری کا دورۂ پاکستان ملتوی کردیا۔
سدھو نے محض چند جملے کہے تھے جو حقیقت پر مبنی تھے، اُن کا یہ کہنا کہ مُٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے کسی ملک یا اُس کی آبادی کو مجموعی طور پر قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سدھو نے صحیح کہا تھا، دہشت گردوں کا کوئی ملک نہیں ہوتا، نہ ہی کوئی مذہب، وہ صرف دہشت گرد ہوتے ہیں۔ اس میں کون سی نئی بات تھی، چلیں مان لیتے ہیں کہ اُن کے پاکستان جانے پر شدّت پسند تنظیمیں اُن سے ناراض تھیں، بلکہ اُنہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی تھیں، لیکن نامور فلم اداکار سلمان خان نے بھی اپنی نئی فلم سے عاطف اسلم کا گانا نکال دیا۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزے کے رنگ پکڑنے کی مثال تو عام ہے، ہند میں بھی ایسا ہی ہوا، اجے دیوگن نے اپنی نئی فلم پاکستان میں ریلیز کرنے سے انکار کردیا۔ یہ مطالبہ بھی شروع کردیا گیا ہے کہ حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والی ہندوستانی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا (جو پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے بیاہی ہوئی ہیں) کو بھی ہند سے دربدر کردیا جائے۔
یہ تو خیر آج کی بات ہے، تقسیمِ ہند سے لے کر آج تک ہند پاکستان کا جانی دشمن رہا ہے، کشمیر ہو یا دہشت گردی، ہر معاملے میں پاکستان کو ملوث ٹھہرانا، پاکستانی دریاؤں کا پانی بند کردینا، سندھ طاس معاہدے کے باوجود چناب پر بند باندھ دینا تاکہ پاکستانی کھیت کھلیان بنجر ہوجائیں اور یہاں کے لوگ بھوک سے زندہ درگور ہوجائیں، یہ ہند کی معاشی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے۔
ہندوستانی میڈیا صبح سے شام تک پاکستان کو سبق سِکھانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ عمران خان نے صحیح جواب دیا کہ جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اسے روکنا انسان کے بس میں نہیں رہتا۔ اُنہوں نے تحمل اور بردباری کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے ہند کو دہشت گردی اور ساتھ میں کشمیر پر بھی بات چیت کی دعوت دی، ہندوستانی قیادت کو باور کروایا کہ 17 سال بعد بھی اگر افغانستان میں جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوسکا اور آج امریکہ جو طالبان کا جانی دشمن تھا، اب اُنہی سے مذاکرات کرنے کا خواہش مند ہے تو ہند کو بھی اپنی سوچ بدلنا پڑے گی۔ پاکستان ہر قسم کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ مذاکرات میں ہند سنجیدہ ہو، نیک نیتی کا مظاہرہ کرے۔ اگر جنگ چھیڑی گئی تو پھر ہم سوچیں گے نہیں، فوری جواب دیں گے۔
ہند کے غم و غصّے کی ایک وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ ماضیٔ قریب میں امریکا اور مغربی دُنیا ہر بات پر ہند کی حمایت کرتے تھے، لیکن آج صورت حال بالکل جُدا ہے۔ آج امریکہ نے پلوامہ واقعے پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ چین نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ہند کو توقع تھی کہ ماضی کی طرح امریکہ، مغربی ممالک ہند کی حمایت کریں گے، لیکن آج پاکستان میں نئی سوچ رکھنے والی حکومت ہے جسے دُنیا احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔
چین نے بھی پاکستان اور ہند کو گفت و شنید کے ذریعے معاملات طے کرنے پر زور دیا ہے۔ ہند کا اپنی خارجہ پالیسی کے منفی نتائج دیکھ کر چراغ پا ہونا اسی وجہ سے ہے کہ اُس کی پاکستان کو تنہا کرنے کی خواہش پوری ہوتی دِکھائی نہیں دے رہی۔ عمران نے اُس کا حل بھی بتادیا کہ ہند اپنی سوچ میں تبدیلی لائے۔ امریکہ، چین اور دوسرے ممالک کی سردمہری کی وجہ سے صاف ظاہر ہے کہ ہند سے ہمدردی دُنیا میں کم ہوتی جارہی ہے۔ عمران نے ہند کو مذاکرات، تحقیقات، جنگ سے دُور رہنے کی تلقین کرکے قومی جذبات کی بالکل صحیح ترجمانی کی ہے۔
ہند نے پاکستان سے تجارت پر بھی پابندی عائد کردی ہے، لیکن اس میں اُسی کا نقصان ہے۔ پاکستان کی ہند کو برآمدات چند سو ملین ڈالر کی ہے جب کہ ہند کی درآمد چاہے براہ راست ہو یا تیسرے ملک کے ذریعے 2 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے، تو پھر پاکستان کو کیا پروا ہے۔ پاکستانی معیشت ویسے بھی مشکلات پر قابو پانے کے بعد اب اُڑان کے لیے تیار ہے۔
ہند کا یہ حکم بھی کہ وہاں قیام پذیر پاکستانی جو ویزا پر گئے تھے، 48 گھنٹے میں وہاں سے نکل جائیں، جنونی کیفیت کا کھلا مظاہرہ ہے۔ ہماری دعا تو یہی ہے کہ ہندوستانی قیادت ہوش سے کام لے اور ہمارے خلاف ہرزہ سرائی فی الفور بند کردے، ورنہ پاکستان بھی جواب دینا جانتا ہے۔ پلوامہ میں کسی پاکستانی نے نہیں، بلکہ ایک کشمیری (جو کشمیر میں ہی پیدا ہوا) نے ہندوستانی فوجیوں پر حملہ کیا تھا، اس حوالے سے جس پاکستانی کا نام لیا جارہا ہے، اُسے مرے ہوئے 10برس سے بھی زیادہ ہوگئے۔ پھر یہ واویلا کیسا…؟