یہ کتاب جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی ، آج کے مسلمان کے پاس اس کے احکام ومسائل سمجھنا تو درکنار، تلاوت کیلئے بھی وقت نہیں
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ریاض
قرآن کیا ہے؟قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو اُس نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی رہنمائی کیلئے آخری نبی حضور اکرم پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق نہیں اور وہ لوح محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو فیصلے ملأ اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر تحریرہیں اور وہ کسی بھی تبدیلی سے محفوظ ہونے کے ساتھ شیاطین کے شر سے بھی محفوظ ہیں، اس لئے اس کو لوح محفوظ کہا جاتا ہے۔ اس کی شکل وصورت وحجم کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے، مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔ قرآن’’ قرأ‘‘ کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں پڑھی جانے والی کتاب ۔ واقعی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن کریم ہے، جس کی بغیر سمجھے بھی لاکھوں لوگ ہر وقت تلاوت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر اپنے پاک کلام کیلئے قرآن کا لفظ استعمال کیا ہے: اِنَّہٗ لَقُرْآنٌ کَرِیْمٌ (الواقعہ77)۔ اسی طرح فرمایا: بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ ( البروج21)۔ قرآن کریم عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
"ہم نے اس کو ایسا قرآن بناکر اتارا ہے جو عربی زبان میں ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔"( یوسف2)۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کیلئے نازل فرمایا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ البقرۃ ،آیت2 اور سورۃ آل عمران، آیت138میں موجود ہے۔
نزول قرآن:
حضور اکرم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی۔
٭ گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی اور آواز نے جو کچھ کہا ہوتا وہ حضور اکرم کو یاد ہوجاتا۔ جب اس طریقہ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔
٭ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ کے پاس آتا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچادیتا۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔
٭ حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں تشریف لاتے تھے۔
٭ بلاواسطہ اللہ سے حضور کی ہم کلامی ہوئی۔ یہ صرف ایک بار معراج کے موقع پر ہوا۔ نماز کی فرضیت اسی موقع پر ہوئی ۔
٭ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے سامنے آئے بغیر آپ کے قلب مبارک پر کوئی بات القاء فرمادیتے تھے۔
تاریخ نزول قرآن:
ماہ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے سمائِ دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً 23سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ کی عمر مبارک 40 سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اتریں وہ سورۃ علق کی ابتدائی آیات ہیں۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد 3 سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ 3 سال کے بعد وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیا تھا آپ کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ پر نازل فرمائیں۔ اس کے بعد حضور اکرم کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرض تقریباً 23سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔
حفاظت ِ قرآن:
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ قرآن کریم ایک ہی بار میں نازل نہیں ہوا بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کیلئے سب سے پہلے حفظ قرآن پر زور دیا گیا چنانچہ خود حضور اکرم الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزول وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ خود آپ() میں ایسا حافظہ پیدا فرمادیگا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپ() اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور پہلے حافظ قرآن ہیں چنانچہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور فرمایا کرتے تھے۔ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے 2بار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ پھر آپ صحابۂ کرامؓ کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اسکے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابۂ کرامؓ کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھاچنانچہ ہمیشہ صحابۂ کرام ؓمیں ایک اچھی خا صی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں اسے دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کیلئے سب سے پہلے حفظ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔ قرآن کریم کی حفاظت کیلئے حضور اکرم نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا چنانچہ نزول وحی کے بعد آپ کاتبین وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔
اُس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا اس لئے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبین وحی میں حضرت زید بن ثابتؓ، خلفائے راشدین، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت معاویہؓ کے نام خاص طور پر ذکر کئے جاتے ہیں۔ حضور اکرم کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں جب جنگ یمامہ کے دوران حفاظ ِقرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو قرآن کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ابتداء میں اس کام کیلئے تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کیلئے تیا ر ہوگئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔ حضرت زید بن ثابت ؓ خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُسوقت سیکڑوں حفاظ قرآن موجود تھے ،مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لیکر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اسکے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اسکے علاوہ حضور اکرم نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابۂ کرامؓ کے پاس محفوظ تھیں،حضرت زید بن ثابتؓ نے انہیں یکجا فرمایاتاکہ نیا نسخہ انہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی ۔ صحابۂ کرامؓ نے قرآن کریم حضور اکرم سے مختلف قرأتوں کے مطابق سیکھا تھا اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قرأ ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیقؓ کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوںچنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردیئے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کیلئے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو30 پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوت قرآن کی سہولت کیلئے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔
فضائل قرآن:
حضوراکرم نے ارشاد فرمایا:
¤قرآن کے ماہر جن کو خوب یاد ہو، خوب پڑھتا ہو اُن کا حشر فرشتوں کے ساتھ قیامت کے دن ہوگا(بخاری، ابوداؤد)۔
¤ قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا۔ پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے(مسلم)۔
¤ جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائیگا، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو تو کیاگمان ہے تمہارا اس شخص کے بارے میں جو خود اس پر عمل پیرا ہو(مسند احمد ، ابوداؤد)۔
فہم قرآن:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تدبر وتفکر کرنے کا حکم دیا ہے،مگر یہ تدبر وتفکر مفسرِ اول حضور اکرم کے اقوال وافعال کی روشنی میں ہی ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارشاد فرمایا ہے:
¤ یہ کتاب ہم نے آپ( ) کی طرف اتاری ہے تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ( ) اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں (النحل44) ۔
¤ یہ کتاب ہم نے آپ( ) پر اس لئے اتاری ہے تاکہ آپ( ) ان کیلئے ہر اُس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں(النحل64)۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسرِ اول حضور اکرم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریںاور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی۔ صحابۂ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے ذریعہ حضور اکرم کے اقوال وافعال یعنی حدیث نبویؐ کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع سے امت مسلمہ کوپہنچی ہے، لہذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔
مضامین قرآن:
علمائے کرام نے قرآن کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں۔تفصیلات سے قطع نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے: * عقائد* احکام* قصص۔
قرآن کریم میں عمومی طور پر صرف اصول ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا عقائد واحکام کی تفصیل احادیث نبویہ میں ہی ملتی ہے، یعنی قرآن کریم کے مضامین کو ہم احادیث نبویہ کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ۔
٭عقائد: توحید ، رسالت، آخرت وغیرہ کے مضامین اسی کے تحت آتے ہیں۔ عقائد پر قرآن کریم نے بہت زور دیاہے اور ان بنیادی عقائد کو مختلف الفاظ سے بار بار ذکر فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، تقدیر پر ایمان، جزاوسزا، جنت ودوزخ، عذاب قبر، ثواب قبر، قیامت کی تفصیلات وغیرہ بھی مختلف عقیدوں پر قرآن کریم میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
٭ احکام: اس کے تحت مندرجہ ذیل احکام اور ان سے متعلق مسائل آتے ہیں،مثلاً عبادتی احکام: نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وغیرہ کے احکام ومسائل۔ قرآن کریم میں سب زیادہ تاکید نماز پڑھنے کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں نماز کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ ہی عموماً زکاۃ کی ادائیگی کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔ معاشرتی احکام: مثلاً حقوق العباد کی ساری تفصیلات۔ معاشی احکام: خرید وفروخت، حلال اور حرام اور مال کمانے اور خرچ کرنے کے مسائل۔ اخلاقی وسماجی احکام: انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق احکام ومسائل۔ سیاسی احکام: حکومت اور رعایا کے حقوق سے متعلق احکام ومسائل۔ عدالتی احکام: حدود وتعزیرات کے احکام ومسائل۔
٭قصص: گزشتہ ابنیائے کرام اور ان کی امتوں کے واقعات کی تفصیلات۔
قرآن اور ہم:
یہ کتابِ مقدس حضور پاک کے زمانہ سے لے کر رہتی دنیا تک مشعل راہ بنی رہے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اتنا جامع اور مانع بنایا ہے کہ ایمانیات، عبادات، معاملات ، سماجیات ، معاشیات واقتصادیات کے اصول قرآن کریم میں مذکور ہیں،ہاں ان کی تفصیلات احادیث نبویہ ؐ میں موجود ہیں مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلق اس کتاب سے روز بروز منقطع ہوتا جارہا ہے۔ یہ کتاب ہماری مسجدوںاور گھروں میں جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی ہے، نہ تلاوت ہے نہ تدبر ہے اور نہ ہی اس کے احکام پر عمل، آج کا مسلمان دنیا کی دوڑ میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کے احکام ومسائل کو سمجھنا تو درکنار اُس کی تلاوت کیلئے بھی وقت نہیں ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دور کے مسلمانوں کے حال پر رونا روتے ہوئے اسلاف سے اس وقت کے مسلمان کا مقارنہ ان الفاظ میں کیا تھا:
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
آج ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، انہیں عصری علوم کی تعلیم دینے پر اپنی تمام محنت وتوجہ صرف کرتے ہیں اور ہماری نظر صرف اور صرف اس عارضی دنیا اور اِس کی آرام وآسائش پر ہوتی ہے اور اُس ابدی ولافانی دنیا کیلئے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے، الا ما شاء اللہ…لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق وشغف قرآن وحدیث سے جوڑیں، اس کی تلاوت کا اہتمام کریں، علماء کی سرپرستی میں قرآن وحدیث کے احکام سمجھ کر ان پر عمل کریں اور اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ ہمارے ساتھ، ہمارے بچے، گھر والے، پڑوسی ، دوست واحباب ومتعلقین بھی حضور اکرم کے لائے ہوئے طریقہ پر زندگی گزارنے والے بن جائیں۔ آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم ناظرہ کی بھی تعلیم نہیں دی جارہی کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے وغیرہ وغیرہ یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کیلئے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کلام کو سیکھنے میں ہمیں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ غور فرمائیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کیلئے نازل فرمایا ہے اور اسکے پڑھنے پر اللہ تعالیٰ نے بڑا اجر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والا اور قرآن وحدیث کے احکام پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔