Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسجد قبا ءکے انتظامات میں غلطی؟

اسامہ حمزہ عجلان ۔ المدینہ
مدینہ منورہ کے باشندوں ، مسجد نبوی شریف کے زائرین اور وہاں عبادت کے آرزو مندوں کو بہت بڑی خوشی شاہ عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ نے سال بھر اور 24گھنٹے مسجد نبوی کھولنے کا حکم دیکر عطا کی تھی۔ یہ انمول نعمت کئی برس پہلے نصیب ہوئی تھی۔ چند ماہ قبل خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مسجد قبا ءکے دروازے زائرین کیلئے 24گھنٹے کھلے رکھنے کا حکم دیکرایک اور خوشی عطا کی۔
اس موقع پر مسجد قبا کے منتظمین کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے” شُوریک“ کی جگہ اور انداز تبدیل کردیا۔ ماضی میں جوتے رکھنے کےلئے ”شو ریک“ مسجدقباء کے مغربی جانب ہوتے تھے، اب انکی جگہ بدل دی گئی۔ اس کےلئے مسجد کے باہر گزر گاہ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مسجد میں داخلے کا یہ دروازہ ایک طرح سے غیر آباد ہے۔ یہاں نہ تو کوئی نماز پڑھتا ہے ، یہاں نماز کےلئے فرش کا بھی انتظام نہیں۔ ماضی میں شو ریک کی جگہ منظم تھی۔ جوتے خانوں میں نمبر پڑے ہوتے تھے۔ دیکھنے میں بھی منظر بھلا لگتا تھا
اب بیشتر زائرین جوتے ہاتھ میں لیکر مسجد میں داخل ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں زائرین کے جوتے مسجد کے چہار جانب رکھے نظر آتے ہیں۔ کئی لوگ دیوار اور ستون کے برابر میں جوتے رکھدیتے ہیں۔ یہ منظر برا لگتا ہے۔ نمازیوں پر یہ منظر شاق گزرتا ہے۔
ہمارے یہاں بیشتر مساجد میں جوتے رکھنے کا جو نظام رائج ہے اب مسجد قباءبھی اس میں شامل ہوگئی ہے۔وہاں ایسی کوئی جگہ نہیں جو نمازیوں کو مقررہ جگہ پر جوتے رکھنے میں معاون ہو۔ اس کا نتیجہ بدنظمی کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ مساجد کا ڈیزائن ایسا بنایا جائے کہ نمازی اور زئرین از خود صفائی اور نظم و نسق کا احترام کریں۔
مسجد قباءمیں جوتے رکھنے کا سابقہ نظام موثر اور قابل عمل تھا۔ اکثر لوگ اسکی پابندی کرتے تھے۔ موجودہ نظام اسلامی تاریخ کی پہلی مسجد کے شایان شان نہیں۔ یہ وہ مسجد ہے جس کی تعمیر میں خود سید الانبیاءوالمرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حصہ لیا تھا۔ 
آرزو ہے کہ کاش مسجد قباءکے منتظمین نئے انتظام پر نظرثانی کریں، جوتے محفوظ کرنے کا پرانا نظام بحال کردیں ۔ بلاقصد غلطی سے پسپائی اختیار کرنا کوئی برائی نہیں۔ غلطی کی اصلاح پر اجر و ثواب اور بندگان خدا کی جانب سے دعاﺅں کی سوغات یقینی ہے۔
میں اس سے قبل ایک تجویز یہ بھی پیش کرچکا ہوں کہ فلاحی کاموں کو منظم کرنے والا ایک ادارہ قائم کیا جائے۔ یہ ادارہ طے کرے کہ کہاں کس قسم کے فلاحی کام درکار ہیں۔ اس ادارہ کی ذمہ داری یہ طے کرنابھی ہو کہ مساجد کہاں مطلوب ہیں۔ انکا ڈیزائن بھی اس کے دائرہ اختیار میں شامل ہو۔ دراصل اہل خیر کہیں بھی غیر منظم طریقے سے مساجد تعمیر کرا دیتے ہیں۔ کہیں کہیں طہارت خانے اور وضوخانے تک نہیں ہوتے ۔کہیں کہیں صفائی کے انتظامات بھی نہیں ہوتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: