Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلال

 اسلام میں احکام شریعت کو ترجیح حاصل ہے، جو شخص اللہ و رسول کے حکم کو تسلیم نہیں کرتا اور کوئی دوسری رائے رکھتا ہے وہ منکر و کافر ہے
 
اللہ بخش فریدی۔فیصل آباد

دین اسلام کی بنیادی اساس اللہ و رسول کے احکامات پر رضامندی، اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ اللہ و رسول کا حکم سنتے ہی اپنی گردن جھکا دینااور سر تسلیم خم کر دینا دین کی بنیادی اساس ہے۔ اسلام’’تسلیم ‘‘سے ہے یعنی قرآن و سنت، اللہ و رسول کے احکام کو تہہ دل سے تسلیم کرنا، ان کے ہرامر، ہر حکم اورہر فیصلے پر راضی ہونا اور کوئی دوسری رائے نہ رکھنا اسلام ہے۔
     دین اسلام میں احکام شریعت کو ترجیح حاصل ہے۔ جو شخص اللہ و رسول کے حکم، دین(نظام ِ حیات) کو تسلیم نہیں کرتا اور کوئی دوسری رائے رکھتا ہے وہ منکر و کافر ہے۔ ہر وہ شخص، ہر وہ جماعت ،گروہ اور تنظیم جس کا مرجع اول وآخر صرف کتاب اللہ وسنت رسول نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں بلکہ اللہ کا منکر، رسول اللہ اوردین کا منکرہے اور کافر ہے۔ ہر وہ نظام کفر ہے جو اسلامی نظام کو چھوڑ کر اپنایا جائے۔ ہر وہ اصول کفر ہے، ہر وہ ضابطہ کفر ہے جو اسلامی ضابطہ حیات کو چھوڑ کر اپنایا جائے۔ہروہ معاشرہ کافر و منکر معاشرہ کو جو اسلامی اصول و ضوابط کا پابند نہیں۔ ہر وہ امر، ہر وہ حکم کفر ہے جو کتاب و سنت سے مطابقت و موافقت نہ رکھتا ہو۔
    عام طور پر ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کلمہ نہیں پڑھتا اور اس کا دل سے اقرار نہیں کرتا وہ کافر ہے گویا ہم اور ہمارا معاشرہ کلمہ کے اقراری کو مسلمان سمجھتا ہے خواہ اس کے اعمال جیسے بھی ہوں ۔ہماری نظر میں وہ مسلمان ہے۔ یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کلمہ گو تو مسلمان ہو گیااور جو کلمہ کا اقراری ہو کر احکام کو نظر انداز کرے، حکم سے روگردانی کرے، نظر پھیرے، جی کترائے اور عمل سے گریز کرے ،اسے کیا کہیں گے؟ جو اللہ و رسول کا ماننے والا ہو کر اللہ و رسول کے احکامات کو ماننے والا نہ ہو، یا ان کے مطابقت عمل کرنے والا نہ ہو اسے کیا کہیں گے؟ جو قرآن و حدیث کے فرامین سن کر پس پشت پھینک دیں انہیں کیا کہیں گے؟ جو معاشرہ قرآن و سنت کا عامل ہو کر ان کے مطابق احکام جاری نہ کرے اس معاشرہ کو کیا کہیں گے؟
    ایک منٹ کیلئے علماء کے کافر سے متعلق معنی اور تعریف کو سائیڈ پر رکھ کر آؤ! ذرا ہم کتاب اللہ سے دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ کریم نے کافر کی تعریف کیا کی ہے؟ کسے کافر کہا ہے؟ کسے ظالم و جابر قرار دیا ہے؟ کسے فاسق و فاجر کا خطاب دیا ہے؟:
    وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ۔
    "اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام و قانون کے مطابق حکم نہ دیں وہی کافر ہیں۔" ( المائدہ  44)۔
    یہ صریح، واضح اور کھلا حکم ہے، کوئی متشابہات میں ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔ یہ قرآن کا کھلا اور واشگاف الفاظ میں نوٹس ہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ یا اپنے رسول کے ذریعہ سے بتائے ہوئے احکام میں سے کسی ایک کا ترک کرنا بھی کفر ہے ۔
    اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران، ہمارے اولی الامر اللہ رب العزت کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم دے رہے ہیں؟کیا ہمارے اولی الامر کی طرف سے اللہ و رسول کے احکامات کی پیروی و اتباع کرنے اور کروانے کا کوئی پلان، کوئی اہتمام ، کوئی کوشش جو سرکاری سطح پر کی گئی ہو؟ کیا ہماری عدالتیں اللہ ور سول کی بنائی گئی شریعت، قوانین اور اصولوں کے مطابق حکم دے رہی ہیں؟ کیا ہماری عدالتیں قرآن وسنت کے مطابق عدل و انصاف پر مبنی فیصلہ سنا رہی ہیں؟کیا ہمارے محکمے، ہمارے ادارے قرآن و سنت اور شریعت مطہرہ کے اصولوں کے مطابق چل رہے ہیں یا ان کی تنفیذ کی تگ و دو میں ہیں؟ ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرہ میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا ۔ کوئی حکومت، کوئی عدالت، کوئی محکمہ، کوئی ادارہ دین کی تنفیذ میں سنجیدہ نہیں ۔ صرف نام کے اسلامی ہونے کا لبادہ اڑے ہوئے ہیں، اندر اسلام والی کوئی بات نہیں۔ اب قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے تو واضح حکم صادر فرما دیا کہ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ دیں وہی کافر ہیں۔ اس آیت مبارکہ کومد نظر رکھتے ہوئے ہم اور ہمارا مجموعی معاشرہ خود اپنا مشاہدہ و محاسبہ کر لے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں؟کہیں یہ آیت مبارکہ ان کے کفر پر دلیل تو ثابت نہیں ہو رہی؟
    اب آگے اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ظالم کی بھی تعریف فرما دی کہ حقیقی ظالم کون ہے اور ظلم کیا ہوتا ہے؟ دنیا چاہے جسے ظالم کہتی پھرے،مگر قرآن کی نظر میں ظالم کون ہے مندرجہ ذیل آیت مبارکہ کھلے الفاظ میں بیان کر رہی ہے:
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ۔
    "اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام و قانون کے مطابق حکم نہ دیں وہی ظالم ہیں۔"( المائدہ 45)۔
    اب ذرا اور آگے بڑھیں، اللہ جلاشانہ نے آگے فاسق و فاجر کی بھی تعریف و نشاندہی فرما دی کہ فاسق کون ہوتا ہے؟ فاسق و فاجر کی نشانی کیا ہے؟ ہم اور ہمارا معاشرہ تو اسے فاسق کہتا ہے جو گناہوں میں حد سے بڑھ گیا ہو۔مگر غور کریں کہ قرآن تو کچھ اور کو فاسق کہہ رہا ہے۔ذرا سنجیدگی سے اور کھلے دل سے سوچیں اور اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں وہ ہم اور ہمارا مجموعی معاشرہ تو نہیں؟ کیا وہ فاسق ہم اور ہمارے حکمران، ہمارے محکمے اور اداروں کے نگران و ذمہ دار آفسران تو نہیں؟
    وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ۔
    "اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون و شریعت کے مطابق حکم نہ دیں، فیصلے نہ کریں وہی فاسق ہیں۔" ( المائدہ  47)۔
    قرآن کریم تو کھلے الفاظ میں نوٹس دے رہا ہے اور ہمار ی اس بڑے نوٹس پر نہ کوئی توجہ ہے نہ کوئی فکر،نہ کوئی ڈر اور خوف۔ اللہ رب العزت نے تو واضح فرما دیا کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں، جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں، جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔ قرآن کریم کے اس صریح اور واضح حکم کے باوجود ہم نہ کافر، نہ ظالم اور نہ ہی فاسق؟ اگر ہم نہیں تو بتائیں کہ قرآن کی ان آیات کی رو سے کافر کون ہے؟ ظالم کون ہے؟ اور فاسق کون ہیں؟جو لوگ حقیقی کافر ہیں ، سرے سے جن کا قرآن و حدیث پر ایمان ہی نہیں، ان کا معاملہ تو الگ ہے اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کیاکرے گا مگر جو مان کر، ایمان رکھ کر،یقین کر کے روگردانی کریں، جو ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال کر پس پشت پھینک دیں، جو زبان سے تو اقرار کریں کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت برحق ہے اور یقین بھی رکھیںمگر ان کے اعمال اس کے موافق نہ ہوں، ان کے کردار اس کے برعکس ہوں تو ان کا حشر یقینا بہت ہی برا ہو گا اور یہ حشر، ذلت و رسوائی، خواری و ناداری ہم دنیا میں ظاہری آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیںکہ آج دنیا میں سب سے ذلیل و خوار قوم مسلمان ہے۔دنیا کے جس کونے میں دیکھو ہم مسلمان ہی ذلیل و رسواء ہو رہے ہیں۔دین سے دوری اور بے یقینی اس کا سبب ہے۔
سن اے تہذیب ِ حاضر کے غلام
غلامی سے بد تر ہے بے یقینی
    آگے چل کراللہ کریم مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ جنہوں نے ہماری آیتوں کو نہ مانا ، ان کے مطابق عمل نہ کیا وہ آگ میں بند کر دئیے جائیں گے:
    وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِآٰ یَاتِنَا ھُمْ اَصْحَابُ الْمَشْئَمَۃِ ،عَلَیْھِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ  ۔
    "اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا( نہ مانا، ان کے مطابق عمل نہ کیا)وہی بائیں (یعنی) دوزخ والے ہیں، انہیں چاروں اطراف سے آگ میں بند کر دیا جائے گا۔"( البلد 20-19)۔
    آج دیکھیں دنیا میں کون ہر سو آگ میں بند ہے؟کس قوم پر ہر سمت آگ و آہن کی بارش ہو رہی ہے؟دنیا میں جس سمت دیکھو ہم مسلمانوں پر ہی آگ برس رہی ہے۔ اگر آج دنیا میں ہماری نظروں کے سامنے قرآن کی آیت سچ ثابت ہو رہی ہے اور آخرت تو ہے ہی احکام قرآن کو سچا ثابت کرنے کی،یہ قرآن کریم کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اللہ کریم نے فرمایا کہ جنہوں نے ہماری آیتوں کو نہ مانا اور اس کے مطابق عمل نہ کیا وہ آگ میں بند کر دئیے جائیں گے،تو کیا آج دنیا کا منظر اس کی عکاسی نہیں کر رہا ؟ اگر آج دنیا میں ہم چار سو آگ میں بند ہیں تو ممکن ہے کہ آخرت میں بھی وہ ہم ہی ہوں غفلت و کوتاہی اور عدم اتباع کی وجہ سے؟ ممکن ہے ہمارا حشر ان سے بھی بد تر ہوجنہیں ہم کافر سمجھتے ہیں۔
    مندرجہ بالا آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذرا ہم اپنا محاسبہ کریں،اپنے جمہوری معاشرت و رہن سہن کو دیکھیں، اپنے طرزِ حیات اور اصول و ضوابط کو دیکھیں، اپنے نظام ِ سلطنت جمہوری نظام کو دیکھیں کہ کیا ہماری اس جمہوریت میں کتاب و سنت ِ رسول کے مطابق احکامات جاری کیے جا رہے ہیں؟ کیا یہ جمہوری نظام قرآن و سنت کے نفاذ کا حامی ہے یا اس کے لیے کوشش کر رہا ہے؟ اگر نہیں کر رہا تو یہ کفر ہے اور ہم سب اس کفر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ہم اس نظام کو ووٹ دیتے ہیں، سپورٹ کرتے ہیں جو قرآن و سنت کا حامی نہیں، جو کتاب اللہ کے نفاذ میں مخلص نہیں ۔ جس نظام کا قبلہ قرآن و سنت کے سوا کوئی اور ہواُس کے کفر ہونے میں کوئی شک نہیں ۔گویا ہم یہ جانتے ہوئے کہ یہ نظام ہمارے اسلامی اصول و ضوابط کے موافق نہیں ، یہ یقین رکھتے ہوئے بھی ہم دیدہ و دانستہ اسے سپورٹ کریں تو ہم کیا ہوئے؟ جمہوریت قرآن و سنت، اللہ و رسول کا واضح کردہ نظام ِسلطنت نہیں اور اس کے مطابق احکام جاری کرتا ہے تو یہ کفر ہے، شرک ہے اور شیطان کی عبادت ہے، جمہوریت کے پجاری شیطان کے پجاری ہیں۔
    کیا کسی شیطان کے ساتھ لفظ اسلام لگا دیا جائے تو وہ مشرف بہ اسلام ہو جاتا ہے؟ کیا کسی شیطانی و کافرانہ نظام کے ساتھ لفظ اسلام لگا دیا جائے تو وہ اسلامی نظام بن جاتا ہے؟ جیسے کسی کافرانہ نظام سوشلزم، لبرلزم، سیکولرزم کے ساتھ اسلام لگانے سے وہ نظام کفر ہی رہتا ہے تو پھر ایک کافرانہ نظام ِجمہوریت کے ساتھ اسلام لگانے سے وہ کیسے مشرف بہ اسلام ہو جائے گا؟ اگر کسی فاسق و فاجر شخص کے نام کے ساتھ لفظ محمد لگا دیا جائے تو کیا وہ شخص محمد کریم کے اوصاف کا حامل ہو جاتا ہے؟ اگر نہیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایک کافرانہ نظام جمہوریت کے اسلام لگاد ینے وہ نظام اسلامی اوصاف کا حامل نہیں ہو جا تا وہ نظام کفر ہی رہتا ہے۔ہمارے ہاں نظام کفر جمہوریت کے ساتھ لفظ اسلامی لگا ہے ، اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ کیا اسلامی لفظ کے اضافہ سے جمہوریت مشرف بہ اسلام ہو کر پاک صاف ہو گئی ہے؟ کل اگر کوئی کافرانہ نظام سوشلزم کے ساتھ لفظ اسلامی دیتا ہے تو کیا وہ نظام بھی پاک ہو جائے گا؟ کل کلاں اگر اور کوئی شاطر دماغ اٹھ کر اسلامی سود کاری متعارف کروا دیتا ہے تو کیا وہ جائز ہو جائے گی؟ اگر کوئی اسلامی یہودیت اور اسلامی عیسائیت کا فلسفہ ایجاد کر لیتا ہے تو کیا اسے بھی قبول کر لیا جائے گا؟ آخرکار اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے استعمال کی گئی کتاب و سنت سے ثابت شدہ اصطلاحات اور صد فیصد کامیابی سے ہمکنار نظام ِخلافت اور نظام ِشورائیت سے پہلو تہی اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے؟
    ہر مہذب اور باشعور قوم کا نظام ِ حیات اس کے بنیادی عقائد و نظریات ، اقدار و روایات، اصول و ضوابط اور نظریہ حیات کا آئینہ دار ہوتاہے اس لیے اگر آج مسلمانوں میں اسلامی نظام ِ حیات رائج نہیں تو ماننا پڑے گا کہ انہوں نے اسلام کو محض زبانی دعوئوں اور ایمان کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ اسے ایک دین ، ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کیا، اسے ایک کامل دین اور ایک مکمل نظام ِ ہائے زندگی کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں دی ۔ اس کی بجائے جو ضابطہ حیات ہم نے اختیار کیا وہ ہمارے اجتماعی نظام (معاشرت، معیشت، عدل و انصاف، قانون وسیاست) وغیرہ سے صاف ظاہرہے۔اِسے جو چاہے نام دیں مگر یہ ایک اسلامی نظام ِ حیات ہرگز نہیں ۔ کیا قرآن و سنت ( اللہ عزوجل اور اسکے پیارے رسول کاتعین کردہ نظام حق نہیں ؟ اگر حق ہے تو آپ خود ہی بتائیں کہ حق کو چھوڑ دینے کے بعد ضلالت و گمراہی اور جہالت کے سوا اور رہ ہی کیا جاتا ہے۔
    فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ، فَاَنّٰی تُصْرَفَوْنَ (یونس32 )۔
    " نظام ِحق کو چھوڑ دینے کے بعد گمراہی اور جہالت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے، تو تم کہاں بہکے جاتے ہو۔‘‘
    اللہ کریم اور اس کے پیار ے رسول کا متعین کردہ نظام و قانون ہی برحق ہے اور اس سے ذرہ برابر بھی روگردانی کفر ہونے کی دلیل ہے۔اس راہ سے ، اس نظام قانون سے ذرا برابر بھی ہٹ کر چلنا شیطان کی راہ پر چلنا ہے۔ ہم اور ہمارا مجموعی ذرا برابر تو نہیں اسلامی قانون شریعت سے بہت ہٹ کے چل رہا ہے تو کیا ہم شیطان کی طرف نہیں جا رہے؟ اسلامی نظام حیات سے ہٹ کر چلنا جہالت اور شیطان کی اتباع و اطاعت کی دلیل ہے اور اللہ نے شیطان کی اطاعت کو شیطان کی عبادت قراردیا ہے ۔
     اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یَا بَنِیٓ آدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوْاالشَّیْطَانَ، اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ( یٰسین 60)۔
    ’’اے آدم کی اولاد! کیا ہم نے تمہیںصریح حکم و تاکید نہیں کر دی تھی کہ شیطان کی عبادت مت کرنا ،وہ تمہارا کھلادشمن ہے ۔ ‘‘
    اب شیطا ن کی عبادت تو بظاہر کوئی نہیں کرتا اور نہ کبھی تاریخ میں سنا گیا کہ کبھی کہیں کسی جگہ شیطان کی بھی عبادت ہوتی رہی ہے۔ بظاہرتو ایسا کہیں نظر نہیں آتامگر حقیقتاً ایسا ہے اور خود ہمارے معاشرہ میں ہے کہ ہر طرف شیطان کی پوجا کی جارہی ہے۔ ذرا فکر سے سوچیں کہ یہاں اللہ کریم کا شیطان کی پوجا، شیطان کی عبادت سے مراد کیا ہے؟ یہاں شیطان کی عبادت و پوجا سے مراد شیطان کی راہ پر چلنا ہے، شیطانی نظام اور اصولوں کو اپنانا ہے، شیطان کی اطاعت و اتباع کرنا ہے۔ طریق دین کو چھوڑ کر کسی بھی طریق پر زندگی بسر کرنا شیطان کی عبادت کرنا ہے۔اللہ کریم کے نظام کو چھوڑ کر کسی اور نظام کو اپنا لینا گویا اسی طرح ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر اسے اپنا معبود بنا لینا۔ اللہ کریم نے قرآن حکیم میں واشگاف الفاظ میں نوٹس دے دیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کو معبودنہ بنا لینا ورنہ اُس کے دائرہ رحمت سے نکل جاؤ گے، راندۂ  درگاہ بنا دئیے جاؤ گے، ملامت زدہ اور بے کس و بے سہارا ہو کر رہ جاؤ گے۔
    لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا ۔
    اللہ کے سوا کسی اور کومعبود نہ بنا لینا( کسی اور کے نظام کو نہ اپنا لینا، کسی اور کی ہدایت پر نہ چلنا) ورنہ ملامتیں سن کر اور بے کس ہو کر بیٹھے رہ جاؤ گے۔ (بنی اسرائیل 22)۔
    اس آیت مبارکہ کی مخاطب پوری انسانیت ہے خاص کر وہ لوگ جو اس پر ایمان رکھتے ہیں یعنی مسلمان۔اب ذرا حاضر دنیا کا مشاہدہ کریںکہ مسلمان اللہ کے نظام ، اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر کس کے نظام، کسی کی ہدایت پر چل رہے ہیں؟اور آیت کے مطابق انجام دنیا کے سامنے ہے۔اس وقت دیکھیں کہ دنیامیں کون ملامت زدہ ہے؟ کون بے کس و بے سہارا ہو کر دنیا میں رہ گیا؟ اس آیت مبارکہ کے مخاطب تو عام انسان تھے مگر اگلی آیت مبارکہ میں اسی طرح کا بیان فرمایا اور مخاطب پیغمبر اسلام کو فرمایا یعنی اگر پیغمبر بھی اللہ کے متعین کردہ نظام کو چھوڑ دیتے تو ان کا بھی یہی انجام ہوتا:
    ذٰلِکَ مِمَّا اَوْحٰٓی اِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَۃِ، وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتُلْقٰی فِیْ جَھَنَّمَ مَلُوْمًامَدْحُوْرًا۔
    "اے پیغمبر ! یہ ان ہدایتوں میں سے ہیں جو اللہ نے حکمت کی باتیں تمہاری طرف وحی کی ہیں اور اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہ بنانا ورنہ ایسا کرنے سے ملامت زدہ اور راندہ درگاہ بنا کر جہنم میں ڈال دئیے جاؤ گے۔"(بنی اسرائیل39)۔
     (جاری ہے)
 

شیئر: