صبیحہ خان ۔ٹورانٹو
پتہ نہیں یہ مافیا کیا بلا ہے کہ ہمارے ملک میں اس کی پیداوار اتنی ہے کہ جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ گندم کی جگہ مافیا اگ رہاہو ۔جیسے قبضہ مافیا، پارکنگ مافیا، تجاوزات مافیا، منشیات مافیا، بھتہ مافیا، بھکاری مافیا، کرپشن مافیا، اتنے مافیا ہیں کہ توبہ توبہ۔یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم مافیا میں خود کفیل ہیں۔
لوگ ان مافیوں کے عادی ہوگئے ہیں جیسا کہ حالیہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کو غریبوں کے خلاف سازش کہا جانے لگا یعنی فٹ پاتھ پر دکان قائم کرنا ان کا حق ہوگیا۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کو سب سے زیاد ہ جن چیزوں نے نقصان پہنچایا اور لوگوں کو غلط راستے پر چلایا وہ کرپشن، رشوت اور مافیا کے ہاتھ مضبوط کرنا اور اس کو سسٹم کا حصہ بناددینا ہے ۔
پارکنگ شہر کا بڑا مسئلہ رہا ہے اور اس مسئلے کو پرچی مافیا نے حل کیا۔ اب آپ پارکنگ کیلئے پریشان ہیں۔ جگہ نہیں مل رہی، ایسے میں پرچی مافیا بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوجاتے ہیں اور آپ کی گاڑی کو بڑی محبت اور مہارت سے چھوٹی سی چھوٹی جگہ پر پارک کرکے آپ پر احسان عظیم کرتے ہیں اور آپ بھی پرچی مافیا کو پارکنگ فیس دیکر سکون کا سانس لیتے ہیں کہ شکر ہے ،پارکنگ تو ملی۔
کسی سرکاری ادارے میں اپنے کام کی غرض سے جائیں تو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے مگر جیسے ہی ”مٹھی گرم فارمولا“ استعمال کیا جائے تو گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہوجاتا ہے۔ غرض لوگوں کی سہل پسندی ، بے اصولی نے رشوت، کرپشن مافیا کے ہاتھ مضبوط کرکے ان کو مستحکم اور مضبوط کردیا ہے ۔ یہ مافیا ہر ادارے کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہے ، بے حدطاقتور ہوگیا ہے اور ساتھ ہی لوگ بھی اس کے عادی ہوتے گئے۔
اس مافیا گینگ کی پیدائش ، افزائش، ساخت و پرداخت ، دور جمہوریت کی مہربانیاںہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا مزاج کچھ ایسا بن چکا ہے کہ لوگو ںکو جس کام سے روکا جائے یا منع کیا جائے وہی کام کرنا ان کا طرہ امتیاز بن جاتا ہے۔ لفظ پابندی سے ہمیں سخت چڑ ہے۔ اس لئے جہاں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ”منع ہے“ اس لفظ کو ہم خاطر میں نہیں لاتے۔ اس کے مظاہرے ہم اپنے معاشرے میں دن رات دیکھتے ہیں۔ بازاروں اور شاپنگ سینٹروں کے آس پاس فٹ پاتھوں پر جگہ جگہ نوٹس بورڈ لگا ہوتا ہے کہ ” فٹ پاتھ چلنے والوں کیلئے ہے یہاں ٹھیلہ لگانا سخت منع ہے“ مگر اس بورڈ کے نیچے ٹھیلے تو ٹھیلے دکانیں بن جاتی ہیں۔ بھتہ مافیا انکی سرپرستی کرتا ہے اور یوں فٹ پاتھ ، شاپنگ سینٹر بن جاتا ہے اور رہے پیدل چلنے والے تو انکی مرضی ہے وہ جس طرح چاہیں آئیں جائیں۔
بہت سی جگہوں پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں پارکنگ منع ہے ۔یہ لکھنا گویا پارکنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور لوگ قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کار سیٹ بیلٹ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے جس کے باعث ہر سال کئی قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں مگر لوگ اس پابندی کے عادی ہی نہیں۔
مافیا کوئی غیر زمینی مخلوق نہیں جس پر قابو نہ پایا جاسکے۔ لوگ مافیا سسٹم کو قبول کرکے اور اس کے خلاف ایکشن نہ لیکر ان کے ہاتھ مضبوط کرتے چلے آئے ہیں ۔ پاکستان بنے 71سال بیت گئے۔ ان سالوں میں شہروں کی پلاننگ کو صرف بگاڑا گیا ۔ لاقانونیت ، بھتہ خوری نے ہر چیز کی اہمیت ختم کردی اور لوگ لا اینڈ آرڈر کی خلاف ورزی کو معمولی بات سمجھنے لگے۔ ناجائز قابضین نے پل، فٹ پاتھ، پارکس یہاں تک کہ ریلوے لائن کو بھی نہیں بخشا۔ اس پر بھی گھر، دکانیں قائم کیں۔ غیر قانونی تعمیرات کی گئیں جن کی وجہ سے شہروں میں مسائل گمبھیر صورت اختیار کرتے چلے گئے۔ ایسا بھی اکثر ہوا کہ جب کوئی پلان کسی ہاﺅسنگ اسکیم کا ہوتا ہے تو اس کے نقشے میں پارک ، کھیل کے میدان، خاص طور پر ہائی لائٹ کئے جاتے ہیں مگر جیسے ہی یہ ہاﺅسنگ اسکیم مکمل ہوتی ہے تو اس میںموجود پارک اور کھیل کے میدان غائب ہوتے ہیں اور اس پر بھی دکانیں قائم ہوجاتی ہیں کیونکہ رشوت اور مٹھی بھر فارمولا کسی بھی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی کمزوری ہے جو نقشہ ہی بدل دیتی ہے۔
نہایت افسوس لیکن حقیقت پسندی سے کہنا پڑتا ہے کہ ذاتی مفاد اور پیسے کے لالچ نے لوگوں کے ضمیر کو مکمل سلادیا ہے۔ ہر وہ کام جائز سمجھ کر کیا جاتا ہے جو انکے مفاد میں بہتر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے انکے اس عمل او رکام سے ملک و قوم کو نقصان کیوں نہ پہنچے، اس کی پروا نہیں صرف اپنی جیبیں بھرنے کیلئے قانون کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔ صاحبان اختیار بھی اپنی کرسی کی مضبوطی کیلئے قانون میں تبدیلیاں کرتے اور آئین کے ساتھ گاہے مذاق کرتے چلے آئے ہیں۔ ہمارے ہاں غیر قانونی کاموں کو روکنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے اور ملک میں ایک نہیں کئی مافیا ززور و شور سے اپنا کام کرتے رہے۔ اب جبکہ قبضہ مافیا اور تجاوزات کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے تو اس پر بھی سیاست ہورہی ہے مگر یہ بات بھی بہت خوش آئند ہے کہ شہری بھی اس پر خوش ہیں جو ناجائز تجاوزات کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ عدلیہ اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں کررہی اور یہ آپریشن تیزی سے جاری ہے۔
ناجائز تجاوزات غیر قانونی تعمیرات کا ٹھیکہ دینے والے عناصر کی بھی سرکوبی ہونی چاہئے ۔جو افسران قبضہ مافیا کی سرپرستی کررہے ہیں انہیں بے نقاب کیا جانا چاہئے تاکہ قبضہ گروپ کی کمر ٹوٹے۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ آج عدلیہ، فوج ، حکومت اس سلسلے میں ایک ساتھ ہیں۔ امید یہ بھی ہے کہ دیگر مافیے جو کرپٹ ساستدانوں کی وجہ سے خوب پھل پھول رہے ہیں انکا بھی احتساب ہوگا۔ جس ملک کے جیسے سیاستدان ہوتے ہیں ،اس کا ویسا ہی معاشرہ اور ویسی ہی اچھی یا بری حالت ہوتی ہے۔
71برسوں میں ہمارے ملک کی ترقی او ر خوشحالی کو یوں نقصان پہنچایا گیا ہے کہ آپس میں نہ اتحاد ہے نہ اتفاق کیونکہ ملک کی سیاسی پارٹیاں مفاد پرستی کا راستہ اپنائے رہیں۔ ملک کے اکثر بیورو کریٹس اوپر سے نیچے تک کرپشن میں ڈوبے رہے جن کی دولت بے حساب ہے۔ امیر ، امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں بے راہ روی عروج پر ہے۔ ہر کوئی بغیر کسی محنت ، جستجو ، جدوجہد کے ترقی کی سیڑھیوں پر چڑھنا چاہتا ہے۔ ہر ادارہ رشوت، کرپشن کی وجہ سے زنگ آلود ہے اب جب نیچے سے اوپر تک آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو تو اس کو راتوں رات کیسے راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔ کرپشن سے پاک پاکستان بنانے کیلئے وقت چاہئے۔