Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیر ملکی ہمیں پسند نہیں کرتے

فہد الاحمری ۔ الوطن
ایک نئے تجارتی مرکز گیاتو عرب شہری نے مجھے خوش آمدید کہا۔ میں نے تجارتی مرکز کے افتتاح کی مبارکباد دیکر عرب نوجوان سے پوچھا کہ کیا آپ کے یہاں سعودی نوجوان بھی کام کررہے ہیں؟ فوراً ہی ایک سعودی نوجوان نے خالص سعودی لہجے میں مجھے مخاطب کرکے ”عربی قہوہ“ پیش کیا۔ بات چیت سے پتہ چلا کہ اس کے یہاں مٹھائیوں کی ایک دکان پر ایک اور سعودی ملازم ہے۔ مجھے یہ ا چھا لگا۔ میں ان سے یہ کہہ کر رخصت ہوگیا کہ آئندہ پابندی سے آپ کے تجارتی مرکز آتا رہونگا۔ یہاں سے شاندار گاڑیوں کے شو روم جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کا منظرنامہ تجارتی مرکز سے بالکل مختلف تھا۔ میں نے شو روم کے عرب انچارج سے بات چیت کرتے ہوئے جب 30سے زائد کارکنان میں سے ایک بھی سعودی نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کیا تو غیر ملکی انچارج نے بیساختہ گھسا پٹا روایتی جواب یہی دیا کہ سعودی ملازم تعینات کئے گئے تھے مگر وہ جلد ہی رخصت ہوگئے۔ وہ کہنے لگا کہ دراصل سعودی نہ ڈیوٹی میں سنجیدہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔ ذمہ داری بھی نہیں لیتے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس قسم کی زبان ہمارے بعض بڑے سرمایہ کار بھی استعمال کرتے ہیں۔ گاڑیوں کے شو روم کے انچارج اور دیگر لوگوں کو میرا ایک ہی جواب ہے کہ ان کا یہ دعویٰ درست نہیں ۔ بہت سارے شواہد اسکی نفی کرتے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ متعدد بڑی کمپنیاں سعودی شہری چلا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آرامکو، سابک اور السعودیہ کمپنیوں میں سعودی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ انجینیئرز، تکنیکی امور انجام دینے اور مختلف اہم کام انتہائی لیاقت کیساتھ تسلی بخش انداز میں انجام دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سعودی دنیا کی یک بڑی کمپنی آرامکو میں اپنی لیاقت منوا چکے ہیں تو وہ اسی درجے کی کامیابی بلکہ اس سے بہتر کارنامے چھوٹی کمپنیوں اور ادارو ںمیں کیونکر انجام نہیں دے سکتے؟
حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے روزگار کی راہ میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔ بعض کاتعلق خود نوجوانوں کی اپنی شخصیت سے ہے اور دیگر کا ان سے کوئی رشتہ ناتہ نہیں۔بعض نوجوان ڈیوٹی کا بوجھ برداشت نہیں کرپاتے۔ اس حوالے سے انہیں سب سے اہم چیلنج ”حریف غیر ملکی“ سے پیش آتا ہے۔ بعض سعودی نوجوانوں نے مجھے بتایا کہ ان کے غیر ملکی رفقائے کار انہیں ستاتے ہیں ۔ ایک نے تو کھلم کھلا یہ تک کہہ دیا کہ ”غیر ملکی ہمیں پسند نہیں کرتے“ میں نے سعودی نوجوان کو یہ کہہ کر سمجھایا کہ یہ فطر ی امر ہے تم یہ بات مان کر چلو کیونکہ تمہاری ملازمت سے اسکی ملازمت خطرے میں پڑرہی ہے لہذا تم صبر و تحمل کا مظاہرہ کرو اورصورتحال کا مقابلہ سفارتی طرز اپنا کر کرو۔ میں نے شاکی سعودی نوجوانوں کو یہ مشورہ اپنے تجربے کی روشنی میں دیا۔ دراصل آرامکو کمپنی میں سعودائزیشن کا سلسلہ شروع کیا گیا تو ہمیں مشکلات پیش آئیں۔ میری ٹریننگ کی ذمہ داری اس برطانوی شہری کے سپرد کی گئی تھی جس کی جگہ مجھے کام کرنا تھا۔ برطانوی شہری مجھے معمولی انداز میں باتیں بتاتا۔ کام کی تفصیلات اور باریکیاں بیان کرنے سے گریز کرتا تھا۔ یہ مسئلہ مجھ سمیت تمام سعودی رفقائے کار کو درپیش تھا۔ ہم نے اس گتھی کو اپنے انداز سے سلجھایا۔ اس سلسلے میں ہم نے سب سے زیادہ اہم جو طریقہ کار اختیار کیا وہ صبر و تحمل کا تھا اور اسی کے ساتھ ہم غیر ملکی رفیق کار سے دوستانہ رشتہ بھی استوار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
ملازمت میں مقابلہ غیر ملکی کے علاوہ خود ہم وطن کیساتھ بھی ہوتا ہے۔ یہ صحت مند رجحان ہے۔ غیرملکی کو یہ عمل اسلئے زیادہ بھاری پڑتا ہے کیونکہ اسے ملازمت کو خیر باد کہنا پڑتا ہے۔ اسے کوئی متبادل کام نہیں ملتا لہذا ہمیں اپنے غیر ملکی رفیق کار کی اس ذہنی حالت کو سمجھ کر اسکا دل جیتنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ ایسا کریں گے تب ہی وہ ہمیں پیشے کے رازبتائے گا۔ اس سے اس کا تجربہ سیکھنے کیلئے اسکے دل پر دستک دینا ہی ہوگی تب ہی وہ اپنے دل کی کھڑکی ہمارے لئے کھولے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: