قومی اداروں کی نجکاری وقت کی پکار
شکر ہے کہ پاکستانی ایئر لائن یا اسٹیل ملز نجکاری کی فہرست سے خارج کردی گئیں، احتجاج کرنا تو اپوزیشن کا کام ہی ہے
صلاح الدین حیدر۔ بیورو چیف
بدھ 6 مارچ کو قومی اسمبلی نے ضمنی بجٹ پاس کردیا۔ اپوزیشن تو احتجاج کرتی ہی رہتی ہے۔ اس کا کام یہی ہے۔ آج پیپلز پارٹی اور ن لیگ شور مچا رہی ہیں تو کل تک وہ خود بھی یہ یہی کرتی رہی ہیں۔ حکومت کا کام ہے پارلیمان چلانا۔ وہ ایسا نہ کرے تو خود کے لئے برا ہوگا۔
ضمنی بجٹ تو پاس ہوگیا لیکن معیشت لگتا ہے پوری طرح ابھرنے میں ابھی کافی وقت لے گی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں کئی ایک قومی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا جو کہ وقت کی پکار تھی۔ 5 سال میں 49 اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔ پہلے ڈیڑھ سال میں 8 ادارے پرائیوٹائیز کیے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں ایس ایم ای بینک جو کہ چھوٹی صنعتوں کو قرضہ دینے کیلئے قائم کیا گیا تھا، فرسٹ وویمن بینک، بلوکی پاور پلانٹ، حویلی بہادر پاور پلانٹ، مری پٹرولیم، جناح کنونشن سینٹر، لاکھڑا کول مائنز اور سروسز انٹرنیشنل ہوٹل فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کارپوریشن، پورٹ قاسم، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن شامل ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے، سول ایوی ایشن اتھارٹی، ریلویز حکومتی تحویل میں ہی رہیں گی۔ ملک کی واحد اسٹیل مل روس کی مدد سے قائم کی گئی تھی اور ایک ملین ٹن لوہا بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی لیکن بے توجہی آڑے گئی اور ایک ایسا ادارہ جو کہ قومی صنعت اور دفاعی ساز و سامان کیلئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، عرصہ دراز سے بند پڑا ہے۔ قومی خزانے کو کتنا نقصان ہورہا ہے کسی کو پروا نہیں۔ ایک الزام یہ بھی لگتا تھا کہ چونکہ نواز شریف فیملی کی اپنی اسٹیل مل ہے اس لئے اسے منافع پہنچانے کیلئے سرکاری اسٹیل ملز کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔
اسی طرح اسٹیٹ لائف انشورنس ایک منفعت بخش ادارہ ہے، بہت سارے قومیائے گئے ادارے بھاری نقصان کی وجہ سے بند کردیئے گئے یا انہیں اونے پونے داموں فروخت کردیا گیا لیکن شکر ہے کہ پاکستانی ایئر لائن یا اسٹیل ملز نجکاری کی فہرست سے خارج کردی گئی۔ جناح کنونشن سینٹر تو ویسے ہی فضولیات میں سے تھا۔ کسی غریب ملک کو پہلے صنعت و حرفت، زراعت، تعلیم اور صحت کو ترجیح دینی چاہیے لیکن پاکستان میں بدعنوانی اور خودغرضی ہمیشہ ہی حکمرانوں کی ترجیحات رہی ہیں۔ سروسز انٹرنیشنل ہوٹل بھی پرائیویٹ سیکٹر میں ہونا چاہیے تھا۔ اسے فروخت کرنے کا فیصلہ بہت درست ہے۔ آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کارپوریشن ایوب خان کے دور حکومت میں جب بھٹو صاحب وزیر پٹرولیم تھے قائم کیا گیا تھا لیکن کافی عرصے سے یہ عضو معطل ہوکر رہ گیا تھا۔ اسے بیچنا ہی اچھا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں آئل اور گیس کی تلاش اب بیرونی کمپنیاں کررہی ہیں۔ آج کل بھی ایک امریکی فرم ایکسون لمیٹڈ 20 ارب ڈالر سے کراچی کے قریب سمندر میں گیس تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ پاکستان میں پٹرول اور گیس کی بہت کمی ہے۔ ایران نے بھاری قیمت سے پاکستان کی سرحدوں تک گیس پائپ لائن بچھا دی ہے اور 5 ارب ڈالر سے پاکستان کے اندر بھی اسے توسیع دینے کیلئے تیار ہے لیکن امریکی دبائو کے تحت اس پر کام رکا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران اس پر دوبارہ توجہ مرکوز کریں۔ اس لیے انہیں نواز شریف، یا شاہد خاقان عباسی کی طرح امریکی دبائو کی قطعاً پروا نہیں ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی کے آگے امریکہ جیسی سپر پاور نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ قطر سے گیس لی گئی لیکن مہنگے داموں، جس پر تحقیقات ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے شاہد خاقان عباسی جو وزیر اعظم بننے سے پہلے وزیر پٹرولیم تھے نرغے میں آجائیں۔