یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت جن تنظیموں کے دفاتر ، مدرسے اوراسپتال تحویل میں لے رہی ہے کیا انہیں کامیابی سے چلابھی پائے گی؟
ڈاکٹر منصورنورانی
پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کے زریں اُصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم نے اُن لوگوں کے خلاف کاروائیاں شروع کردی ہیں جنہیں ہم کبھی مجاہدین اور حریت پسند کہا کرتے تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے 80 کی دہائی میں سوویت یونین کیخلاف کسی دوسری عالمی طاقت کی ایماء پر افغانستان میں لڑنے کیلئے ہم نے مجاہدین اور جانبازفورسسز کے ایسے دستے تیارکئے جنہوں نے نہ صرف سویت یونین کو وہاں سے نکل جانے پرمجبور کردیا بلکہ اُس کی وحدت و سا لمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔اُس وقت تک یہ لوگ دنیا کی دیگر عالمی طاقتوں اور خود ہماری نظر میں بہت بڑے محسن تھے مگر کام نکل جانے اور انکل سام کی ترجیحات کے بدل جانے کی وجہ سے پھر یہ لوگ دہشت گرد کہلانے لگے۔ اب امریکہ انہیں اپنا دشمن سمجھنے لگا۔ نائن الیون کے بعد یہ نظریہ اور بھی زور پکڑنے لگا۔سب سے پہلے افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت کو ختم کیا گیااور پھرمبینہ دہشتگردی کیخلاف اعلان جنگ کردیا گیا۔ پاکستان میں اُسوقت ایک ایسے شخص کی حکومت تھی جس کی پالیسیاں اورحکمت عملیاں اپنے سابقہ پیش رو جنرل ضیاء الحق سے قطعی طور پر بہت مختلف تھیں۔وہ اِن مجاہدین کو دہشتگرد سمجھاکرتاتھا۔ اُس نے سامراجی طاقتوں کے آگے سرنگوں کرتے ہوئے اُن کے سارے مطالبات مان لیے۔دہشتگردی کیخلاف عالمی جنگ کا ہم باقاعدہ حصہ بن گئے۔نتیجتاًیہ جنگ افغانستان سے نکل کر ہمارے اپنے ملک کے اندر بھی پھیل گئی۔ہم نے اِس جنگ کا خمیازہ 15سالوں تک بھگتا۔ہماری معیشت تباہ ہوگئی ۔ ہمارے فوجی اور معصوم شہری خود کش حملوں اور بم دھماکوں کاشکار ہونے لگے۔جن طاقتوں کی ایماء پر ہم یہ جنگ لڑرہے تھے اُن کے شہری اور باشندے تو چین کی نیندیں سوتے رہے اور ہم آگ اور شعلوں میں اپنی زندگیاں گنواتے رہے۔
پھر ایک روز آرمی پبلک اسکول پشاور میں اندوہناک واقعہ رونما ہوتاہے او ر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت ضرب عضب نامی آپریشن شروع کیا جاتا ہے اورسارے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کا تہیہ کیاجاتا ہے لیکن شاید دہشت گردوں کی پہچان اور شناخت میں ہم نے ایک بار پھر 2 معیار مقر ر کررکھے تھے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا ہم سے مسلسل ڈومور کامطالبہ کرتی رہی اور ہم ان کے سامنے مزاحمت دکھاتے رہے۔دہشتگردی میں ملوث ہونے کا الزام اب افغانستان سے نکل کر ہند سے بھی آنے لگا۔ ممبئی دھماکوں کے بعد ہم پریہ دباؤ مزید بڑھنے لگا۔دنیا کے خیال میں ہمارے یہاں کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو کالعدم ہوجانے کے باوجود اب بھی متحرک اور فعال ہیں۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے گذشتہ برس جون میں ایسی تنظیموں کیخلاف ایکشن لینے کیلئے ہمیں کچھ مہینوں کی مہلت دیتے ہوئے گرے لسٹ میں شامل کردیا۔ یہ مہلت اِس سال مئی کے مہینے میں ختم ہونے والی ہے۔ہم نے اگر اب بھی کوئی ایکشن نہ لیاتو پھر ٖFAFTہمیں بلیک لسٹ میں ڈال دے گی اور ہم پراقتصادی پابندیاں بھی لگادی جائیں گی۔
اتفاق کہ ایسے میں کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک خود کش حملہ ہوجاتاہے جس میں ہند کے 44فوجی اہلکارمارے جاتے ہیں۔ ہند حسب عادت بلا سوچے سمجھے اوربلاتحقیق کے اِسکا الزام ہمارے سر تھوپ دیتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ مولانا مسعود اظہر کی تنظیم جیش محمد کو اِس کا ذمہ دار بھی قرار دیتا ہے۔ جیش محمد نامی تنظیم کی ابتدا ء 1999میں مولانا مسعود اظہر کی ہند سے رہائی کے بعد میں عمل میں لائی گئی تھی لیکن پھر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے عالمی دباؤ کے تحت 2002ء میں اُس پرپابندی بھی لگادی تھی۔جیش محمد تنظیم کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ کشمیر میں تحریک آزادی میں شامل حریت پسندوںکی بھر پور معاون اور مددگار بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہند ہمیشہ سے اِس تنظیم کو اپنا دشمن سمجھتا رہاہے اوراُسے مکمل طور پر نیست ونابود کردینے کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔پلوامہ کے واقعہ کے بعد اُس کے اِس مطالبے نے اور بھی شدت اختیار کرلی لہٰذا ہماری اِس نئی حکومت کو انکار کے باوجود اِس ضمن میں کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا بھی پڑ رہا ہے۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز یا غیرریاستی عناصرکے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ کبھی ہمارے مفاد میں کام کیاکرتے تھے لیکن اب یہ ہمارے لئے بوجھ بنتے جارہے ہیں۔یہ کشمیر کاز کو بھی اب نقصان پہنچارہے ہیں۔ملکی پالیسی میں اتنا بڑا یوٹرن ہم نے شاید پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔حکومت اِن نان ایکٹر ز کو ہندوستانی ڈوزیئرز کے تحت گرفتار بھی کررہی ہے۔اور اُن کی پراپرٹیز کو اپنی تحویل میں بھی لے رہی ہے۔کہا یہ جارہا ہے کہ اُنہیں قومی دھارے میں شامل کیاجائے گالیکن یہ قومی دھارا کس قسم کا ہوگا اِس بارے میں ابھی کچھ بھی واضح نہیں۔ شومئی قسمت سے خان صاحب کی اِس نئی حکومت کو ماضی کی دیگر سویلین حکومت کی طرح اپنے طاقتور حلقوںکی جانب سے مخالفت اور مزاحمت کا اُس شدت سے سامنا نہیں ہورہا جو اِس سے پہلے دیکھا گیا ہے۔ تحریک انصاف ہمارے ملک کی وہ واحد سویلین جمہوری حکومت ہے جس کا ہنی مون پیریڈ 6ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوپارہا۔اِس سے پہلے کی جمہوری حکومتوں کو بین الاقوامی دباؤ کے ساتھ ساتھ اندرونی دباؤ کاسامنا بھی رہا ہے۔وہ کسی ایسے گروپس یاتنظیموں کیخلاف کاروائی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔اُن کی مجبوری یہ تھی کہ وہ اپنی اِس مشکل کاتذکرہ بھی کسی سے نہیں کرپاتی تھیں۔ مشہور زمانہ ڈان لیکس اسکینڈل کے پس پردہ محرکات بھی کچھ ایسے ہی تھے جنہیں وہ آج بھی اپنی زبان پر لانے سے ہچکچاتے دکھائی دیتے ہیں۔خان صاحب کو ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔ وہ گھر کو ٹھیک کرنے کے پرانے سنہری اصول پر عمل پیرا ہونے جارہے ہیں۔اُن کے پاس اِس وقت ایک بھر پور موقعہ ہے۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر نکالنے کیلئے ہر کوئی اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔تمام مقتدر قوتیں اُن کی معاون اورمددگار بھی ہیں۔اپوزیشن بھی تعاون کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔اب یہ اِس حکومت کی قابلیت اورلیاقت پرمنحصر ہے کہ وہ اِس کام میں کتنی کامیاب اور سرخروہوتی ہے۔سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ احسن طریقے سے اِس کام کوکرنے کا اِس سے بہتر موقعہ شاید پھر ہمیں کبھی نہیں ملے گالیکن یہاں یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ جن تنظیموں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اُن کے دفاتر ، مدرسے اور ہسپتال حکومت اپنی تحویل میں لے رہی ہے کیاوہ انہیں اُسی کامیابی سے چلابھی پائے گی جس طرح وہ پہلے چلاکرتے تھے۔ایسانہ ہوکہ عوامی فلاح و بہبود کے یہ مراکز حکومتی نااہلی کاشکار ہوکربند ہوجائیں او ر عوام کی ایک کثیر تعداد اِن سہولتوں سے محروم ہوجائے۔قومی دھارے میں شامل کئے جانے والے سرکردہ عناصر سے کس طرح کاکام لیاجائے گا۔ایسا نہ ہوکہ وہ پھر کسی دوسرے نام سے متحرک اورمنظم ہوجائیں۔اِن ساری باتوںکا ہمیں مد نظر رکھنا ہوگا۔ عالمی طاقتیں بھی مسلسل جائزہ لے رہی ہیں۔