Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مساجد میں آگہی

فہد الاحمری ۔ الوطن
عشاءکی نماز ادا کرکے مسجد سے نکل رہا تھا ۔ نمازی دروازے کے سامنے اس طرح بھیڑ کئے ہوئے تھے جیسے نماز جمعہ کے بعد نظرآتی ہے۔ میں نے ماجرا دریافت کیا تو بتایا گیا کہ یہ لوگ اپنے جوتے تلاش کررہے ہیں۔ یہ سن کر مجھے یاد آیا کہ 2روز قبل مسجد کے دروازے کے باہر ”کالا ڈبہ“ رکھا گیا تھا جس پر انتباہی جملہ “ اگر آپ نے جوتے مقرر جگہ پر نہیں رکھے ہونگے تو وہ یہاں ملیں گے۔ میں اپنے جوتے مقررہ جگہ سے اٹھا کر اپنے دوست کا انتظار کرنے لگا جو اپنے جوتے تلاش کررہا تھا۔ واپس آکر کہنے لگا کہ وہ جلدی میں تھا رکعت میں شامل ہونے کیلئے جوتے دروازے کے سامنے چھوڑ کر مسجد میں داخل ہوگیا تھا۔ میں نے کہا کہ آخر جلدی کس بات کی تھی؟ فاتحانہ انداز میں کہنے لگا کہ اگر یہاںمفت پلاٹ مل رہے ہوتے یا چیک تقسیم کئے جارہے ہوتے تو سارے نمازی دوڑتے ہوئے آتے ”نماز“ کی وہ اہمیت نہیں اسی لئے منافقوں کی طرح بھاری قدموں سے آتے ہیں۔
میں نے اپنے دوست سے کہا کہ جس نے آپ کو یہ بات سکھائی ہے وہ جاہل ہی نہیں احمق بھی ہے۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہوگی کہ میں خود کو ”منافق“ ہونے کے الزام سے بچانے کیلئے نماز پڑھنے دوڑتے ہوئے آﺅں؟ 
دراصل قرآن کریم میں جہاں نماز کیلئے بھاری قدموں سے آنے والوں کو منافق کہا گیا ہے وہ دراصل مومن نہیں تھے۔ نماز کیلئے مسجد جانے کا اسلامی پروٹوکول یہ ہے کہ وقار اور سکون کے ساتھ مسجد کا رخ کیا جائے۔ جلد بازی اور دوڑ لگانے کو ناپسند کیا گیا ہے۔ نماز کیلئے جانے والا بحالت عبادت ہوتا ہے۔ عبادت کے دوران دوڑ نہیں لگائی جاتی اور جوتے ادھر ادھر نہیں پھینکے جاتے۔ 
شیخ عثیمین رحمتہ اللہ علیہ اپنی مسجد کے دروازے کے سامنے پڑے ہوئے جوتے ایک طرف ہٹا دیتے تھے کیونکہ ان میں بوڑھے نمازی اور بچے الجھ کر گر جاتے تھے۔ بعض نمازی بوڑھوں اور معذوروں کیلئے مخصوص راہداری تک جوتوں سے بند کردیتے ہیں کئی معذور اور بوڑھے جوتے ہٹاتے ہوئے وہیل چیئر سے گر جاتے ہیں۔ بہت سارے لوگ راستے سے تکلیف دہ اشیاءہٹانے کا کار ثواب مانتے ہیں تاہم مسجد پہنچ کر جوتے راستے میں اتار کر اندر چلے جاتے ہیں۔ اس طرح جوتے پھینکنے سے وبائی جراثیم مسجد اور گھر میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ یہ منظر بھی برا لگتا ہے۔ اس سے مسلمانوں کی غلط تصویر مرتسم ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظم و ضبط اور اس کا احترام کا سلیقہ 3ادارے سکھاتے ہیں۔ گھر، اسکول اور معاشرہ ہی نظم و ضبط سکھاتا ہے۔ انسان اپنے طور پر بھی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتا ہے۔ 
بعض حضرات فطرتاً نظم و ضبط پسند کرتے ہیں اور بدنظمی سے الجھتے ہیں ایسے لوگ پسند کئے جائیں۔ جمالیاتی احساس صفائی پسندی اور نظم و ضبط کی پاسداری اچھی خوبی ہے۔ بعض مساجد میں (شو ریک) نہیں ہوتے۔ مساجد کے نقشے تیار کرتے وقت جوتے خانے بنانے کا بھی دھیان رکھا جانا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: