Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین کو کام کا موقع دینا ہے یا ترجیح؟

خالد السلیمان ۔ عکاظ
سرکاری اور نجی اداروں کے کارکنان میں سعودی خواتین کی تعداد بڑھانے کی کوشش ہورہی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران خواتین کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ان دنوں اس کی تلافی کا مشن قابل فہم ہے۔ اس حوالے سے ایسے شعبوں کا تعین کرلیا گیا جہاں بے روزگار خواتین کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملازم رکھا جانا ہے۔ 
میں خواتین کو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ دار بنانے سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں لیکن خواتین کو ترجیح دینے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ روزگار استعداد، لیاقت او رکمال کی بنیاد پر دیا جائے۔ ملازمت فراہم کرنے کی اساس ”صنف نازک“ کو نہ بنایا جائے ۔ معاشرہ میں فرائض کی تقسیم کے کلچر کو فروغ دیا جانا چاہئے۔ ہمیں یہ کام ٹھیک اس طرح انجام دینا ہے جیسا کہ مرد و زن کے درمیان روزگار کے مواقع اور حقوق میں مساوات کی ذہن سازی کے حوالے سے کیا جارہا ہے۔
مغربی معاشروں کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں شوہر اور بیوی زندگی کی ذمہ داریاں مل جل کر پوری کرتے ہیں ۔دونوں گھر کے اندر اور باہر اپنا کام اور اپنا فرض متعین کرکے انجام دیتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے کا حال مختلف ہے۔ یہاں سماجی روایات کے مطابق گھر بنانے اور گھریلو اخراجات کی تمام تر ذمہ داری مرد حضرات پر ہوتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بیوی ملازم ہے کہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعض خواتین گھر کا پورا خرچ چلاتی ہیں۔ وہی اولاد کی نشوونما کرتی ہیں جبکہ خاوند اپنے فرض سے مکمل طور پر غافل رہتا ہے۔ اس طرح کے استثنائی واقعات بھی ہوتے ہیں البتہ عام رواج یہی ہے کہ بیوی کے ملازم ہونے کے باوجود خاوند ہی گھر کے جملہ اخراجات دیتا ہے اور گھر کی ساری ذمہ داری صرف اسکی ہوتی ہے۔
اس تناظر میں عرض یہ کرنا ہے کہ اگر ہم نے روزگار کے سلسلے میں مردوں پر خواتین کو ترجیح دی اور روزگار میں مسابقت کے اصولوں کو نظر انداز کیا، استعداد اور لیاقت کو بالائے طاق رکھ کر خواتین کو روزگار فراہم کیا، ملازم میاں بیوی کے درمیان معاشی اخراجات اور ذمہ داریوں میں عدم تقسیم کے ماحول میں خواتین کو مردوں پر ترجیح دینا نوجوانوں پر ظلم ہوگا۔ ایسا کرکے خصوصاً ایسے نوجوانوں کے ساتھ صریح ناانصافی ہوگی جو اپنا گھر بسانے کی تیاریاں کررہے ہوں اور جس کی ایک، ایک اینٹ رکھنا انکے ذمہ ہے۔ ہمیں معاشرے کی نزاکتوں کو بھی سمجھنا ہوگا اور مرد و زن کے درمیان فرض اور ذمہ داری میں توازن بھی قائم اوراسے برقرار رکھنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: