اعدادوشمار اور ناموں کی زبان
مشعل السدیری ۔ الشرق الاوسط
معروف اسکالر ڈاکٹر عبدالوہاب المسیری نے اپنی معروف ترین تصنیف ”یہود ، یہودیت اور صہیونیت“انسائیکلوپیڈیا 15برس میں تیار کیا۔ میں اختصار کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے ایسے حقائق اور اعدادوشمار پیش کرنے جارہا ہوں جنہیں پڑھ کر دل درد سے چیخ اٹھے گا۔ یہ سارے نام ہیں ، عنوان ہیں ۔قارئین سے یہ بھی چاہوں گا کہ وہ اس حقیقت کو مدنظر رکھیں کہ پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد 20ملین سے بھی کم ہے اور مسلمان ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہیں۔
یہودیوں نے بنی نوع انساں کو بہت ساری ایجادات دی ہیں۔ ان میں نمایاں ترین یہ ہیں:
انجکشن کا موجد بنیامین روبن ،انسداد پولیو کے قطرات کا موجد یونس سیلک،خون کے کینسر کی دوا ایجاد کرنے والا گیرٹ روڈ الیون، گردے کی وبائی سوزش اور اسکا علاج دریافت کرنے والا بیرخ بلومبرگ، الزائمر کی دوا دریافت کرنے والا پال ارلخ، مدافعتی نظام پر ریسرچ کو نئی جہت دینے والا ایلی میچنکوف، غدود کے اہم ترین اسکالر اینڈرو چیلی، مانع حمل گولیوں کا موجد گریگوری بیکوس، انسانی آنکھوں کے امور کا ماہر جارج ویل، کینسر کے علاج پر انتہائی اہم ریسرچ کرنے والا اسٹینلی کوہن اور مصنوعی اعضاءکا اسکالر ولیم قلوفکیم ہے۔
اب کچھ ایسی ایجادات کی بابت بھی چند باتیں ملاحظہ کرلیجئے جن کے موجد یہودی ہیں اور جن ایجادات نے دنیا کی شکل بدل ڈالی۔
ایٹم بم کا موجد لیوزی لینڈ، سگنلز کا موجد چارلس ایڈلر، اسٹین لیس اسٹیل کا موجد بینو اسٹراس، سمعی فلموں کا موجد ایس ڈورکیسی، مائیکرو فون او رگراما فون کا موجد ایئر بیر لینڈر، وڈیو ریکارڈر کے موجد چارلس گینبرگ اورآپٹک فائبر کے موجد پیٹر شولٹس ہیں۔
یہودیوں کی ذہانت اور بقول بعض مکاری یہ بھی ہے کہ یہ بین الاقوامی موثر ترین میڈیا پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ مثال کے طو رپر سی این این کا مالک وولف بلیٹرز، اے بی سی نیوز کی مالک باربرا والٹرز، واشنگٹن پوسٹ کا مالک یوجن مایر، ٹائم میگزین کا مالک ہینری کرون ویلٹ، نیویارک ٹائمز کا مالک جوزف لیفڈ ہیں۔
چشم کشا حقائق یہ بھی ہیں کہ گزشتہ 105برس کے دوران 20ملین سے کم تعداد رکھنے والے یہود میں سے 180نوبل ایوارڈ جیت چکے ہیں۔ اس دوران ڈیڑھ ارب کی تعداد رکھنے والے مسلمانوں میں سے صرف 3ہی یہ ایوارڈ حاصل کرسکے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ 80ہزار یہودیوں میں سے تقریباً ایک یہودی نے نوبل ایوارڈ جیتا اور 500ملین مسلمانوں میں سے ایک مسلمان کے نصیب میں نوبل ایوارڈ آیا۔
زیادہ درد انگیز سوال یہ ہے کہ کیا علوم و معارف میں یہودکی برتری محض اتفاقی امر ہے؟یا یہ جعلسازی ہے؟ یا یہ سازش ہے؟ یا یہ سفارش کا نتیجہ ہے ؟سوال یہ ہے کہ مسلمان اس درجے تک کیوں نہیں پہنچ سکے۔ سوال یہ بھی ہے کہ تعداد میں اتنے زیادہ اور واضح فرق کے باوجود مسلمان اعلیٰ عہدوں پر کیوں فائز نہ ہوسکے اور تبدیلی کیوں نہ لاسکے؟
ان سوالات کا جواب میرے بس سے باہر ہے البتہ اس بات کا مجھے یقین ہے کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ اس المیے کی ذمہ دار ہے۔ آپ لوگ اس گڑبڑ کا پتہ لگائیے۔ میں جو انتباہ دے سکتا تھا وہ دے چکا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭