’نیوزی لینڈ سے سیکھیں اقلیتوں کا تحفظ کیسے ہوتا ہے‘
اعظم خان۔ اسلام آباد
پاکستان کی اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھوٹکی سے مبینہ طور پر اغوا کی جانے والی دو’ ’ہندو‘‘ بہنوں کے شادی اور اسلام قبول کرنے سے متعلق حقائق تک پہنچنے کے لیے 5رکنی انکوائری کمیشن قائم کردیا ہے۔
کمیشن میں انسانی حقوق کمیشن وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری، خواتین کے قومی کمیشن کی چیئرپرسن خاور ممتاز، معروف سماجی شخصیات آئی اے رحمان، مہدی حسن اور مولانا تقی عثمانی پر مشتمل ہے۔
منگل کو سماعت کے دوران دونوں بہنوں کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ عدالت نے کمیشن کی رپورٹ تک دونوں لڑکیوں کو شہید بے نظیر بھٹو کرائسز سنٹر میں ہی رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کمیشن کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دونوں ’ہندو‘ بہنوں اور ان کے والدین سے ملاقاتیں کرے اور پھر اپنی رپورٹ عدالت کو پیش کرے۔ وزارت داخلہ کمیشن کے اجلاس منعقد کرانے میں معاونت کرے گی۔
یاد رہے کہ سندھ کے ضلع گھوٹکی سے دونوں ’ہندو‘ بہنوں کو گذشتہ ماہ مبینہ طور پر اغوا کرکے پنجاب لایا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے واقع کا نوٹس لیا تو دونوں لڑکیوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے بار بار یہ سوال اٹھایا کہ سندھ کے صرف مخصوص ضلع میں ایسا کیوں ہورہا ہے جبکہ اسلام تو اقلیتوں کے تحفظ کا درس دیتا ہے، نیوزی لینڈ سے سیکھیں اقلیتوں کا تحفظ کیسے ہوتا ہے۔
دوسری سماعت کے دوران بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کا کمرہ عدالت وکلا، میڈیا نمائندوں اور سائلین سے کھچا کھچ بھراہوا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی تھر سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کرشنا کماری، تحریک انصاف کے ڈاکٹر رمیش وانکوانی، گھوٹکی کی دونوں بہنوں کے والدین، لڑکیوں کے مبینہ شوہرصفدر علی، برکت علی اور بھرچونڈی درگاہ کے پیر میاں مٹھو بھی عدالت میں موجود تھے۔
لڑکیوں کے والدین کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل گلباز مشتاق نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ خدشہ ہے کہ لڑکیوں کے دل میں اپنے اغوا کاروں کے لیے ہمدردی پیدا ہوگئی ہے۔
ان موقف تھا کہ اس معاملے کی آزاد انکوائری کرائی جائے۔ ’یہ زبردستی مذہب تبدیلی اور شادی کا معاملہ ہے۔‘ چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل نے کہا کہ دنوں بہنوں کے نفسیاتی ٹیسٹ بھی کرائے جائیں۔
لڑکیوں کے مبینہ شوہروں کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل عمیر بلوچ نے کمیشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے پیش کی جانے والی پمز ہسپتال کی میڈیکل کی رپورٹ کے مطابق لڑکیاں بالغ ہیں، انہوں نے مجسٹریٹ کیسامنے بیان دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہیں۔ ’مزید کسی انکوائری کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکلا سے مخاطب ہوکر ریمارکس دیے کہ یہ ایک غیر معمولی مقدمہ ہے۔ اس میں انکوائری کمیشن کو دونوں بہنوں اور ان کے والدین سے مل کر حقائق مرتب کرنا ہوں گے۔
کمیشن کی مدت کے تعین کے سوال پر دونو ں اطراف کے وکلا عدالت میں ہی اختلاف بھی سامنے آیا۔
دونوں بہنوں کے شوہروں کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے خدشے کا اظہار کیا کہ کمیشن دباؤ ڈال کر بیان تبدیل کرانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’لڑکیوں سے کوئی نہ ملے تاکہ کوئی دباؤ میں نہ لائے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کو روزانہ کی خبر ملتی ہے کہ کتنا وقت دونو ں بہنوں سے آپ (وکیل عمیربلوچ) کی ملاقات ہوتی ہے جبکہ ان کے والدین کو صرف پانچ منٹ ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔
جب وکلا نے کمیشن میں مفتی تقی عثمانی کا نام شامل کرنے کی تجویز دی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے، یہ ایک مقامی مسئلہ ہے۔ وکلا نے کہا کہ معاملہ صرف اعتماد کا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے تقی عثمانی کو بھی کمیشن میں شامل کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ اس کیس کی آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت دی ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ انکوائری رپورٹس بھی آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے پیش کی جائیں۔
اس کیس کے دوسری سماعت پر سندھ کی بھرچونڈی درگاہ، جہاں مبینہ طور پر دونوں بہنوں نے اسلام قبول کیا، کے پیر عبدالحق عرف میاں مٹھو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں بہنوں نے مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ ’اس واقعے کے بعد مزید چار لڑکیوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔‘