طالبان مذاکرات: افغان حکومت کے 250 مندوبین کی فہرست جاری
افغان حکومت نے رواں ہفتے دوحہ میں طالبان کے ساتھ ملاقات کرنے والے وفد کی ایک طویل فہرست جاری کی ہے جس میں 52 خواتین سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ سرکاری افسران بھی شرکت کریں گے۔
گذشہ ہفتے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے انٹر افغان ڈائیلاگ کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا جس میںافغان حکومت کا وفد طالبان سے ملاقات کرے گا۔
طالبان نے اس ملاقات پر رضامندی ظاہر کی تھی ، لیکن یہ بھی کہا تھا کہ یہ کوئی باقاعدہ سرکاری ملاقات تصور نہیں کی جائے گی۔
منگل کو افغان صدارتی محل کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ مطابق طالبان کے ساتھ ہونے والے ڈائیلاگ میں 250 عہدیدار شرکت کریں گے۔
بیان کے مطابق صدارتی محل کی جانب سے جاری کی گئی فہرست میں صدر اشرف غنی کے چیف آف سٹاف عبدل سلام رحیمی ، اور صدارتی امیدوار اور خفیہ ادارے کے سابق سربراہ امراللہ صالح بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ نوجوانوں کے نمائندگان، قبائلی عمائدین، اور 52 خواتین بھی وفد کا حصہ ہوں گی۔
جمعے سے شروع ہونے والے تین روزہ متوقع مذاکرات کے ذریعے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے رابطے کو انتہائی اہمیت دی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ طالبان صدر غنی کی حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت سمجھنے کی بنا پر ان سے براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اس بار بھی طالبان نے اصرار کیا ہے کہ حکومتی عہدیدار مذاکرات میں ذاتی حیثیت میں شرکت کریں گے۔
دوسری جانب افغان طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس ملاقات کے میزبانوں کا کابل سے اتنی تعداد میں شرکا کو قبول کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔
بیان کے مطابق فہرست میں سے محدود تعداد میں سیاسی اور قومی شخصیات کو منتخب کیا جائے گا اور وہی اس میں شرکت کریں گے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کابل میں یہ فہرست تیار کرنے والے اس بات کا احساس کریں کہ یہ کانفرنس ایک خلیجی ملک میں ہو رہی ہے اور یہ کابل کے کسی ہوٹل میں شادی کی تقریب یا کسی پارٹی کا دعوت نامہ نہیں ہے۔
اس سے قبل افغان حکومت اور طالبان کے مابین خفیہ مذاکرات پاکستان میں سال 2015 میں ہوئے تھے جو افغان طالبان کے رہنما ملا عمر کی ہلاکت کی خبر آتے ہی ناکام ہو گئے تھے۔
طالبان کی جانب سے اب تک مذاکرات میں شرکا کے نام سامنے نہیں آئے ہیںاور نہ ہی طالبان نے خاتون نمائندہ کی شرکت کے حوالے سے کوئی وضاحت کی ہے۔ تاہم کہا جا رہا تھا کہ طالبان کے وفد میں خاتون بھی شریک ہوں گی۔ ان مذاکرات میں امریکی عہدیداروں کی شمولیت متوقع نہیں ہے۔
دوسری جانب امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات کو خواتین کی نمائندگی نہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد بھی تمام طبقات کی شمو لیت پر زور دیتے رہے ہیں۔
رواں سال فروری میں ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں صدر غنی کے حکومتی نمائندگان کے علاوہ دیگر افغان اور سیاستدانوں کے علاوہ سابق صدر حامد کرزئی کے ترجمان نے بھی شرکت کی تھی، لیکن افغان حکومت کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
رواں ماہ اپریل میں اقوام متحدہ نے گیارہ طالبان مندوبین پر سے سفری پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا تا کہ وہ مذاکرات میں شامل ہو سکیں۔ان میں تحریک طالبان کے شریک بانی اور اعلیٰ رہنماملا عبدالغنی برادر، اور طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار شیر محمد عباس ستانکزئی شامل ہیں۔