Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاقی کابینہ میں اتنی جلدی اکھاڑ پچھاڑ کی نوبت کیوں آئی؟

***عابد ملک***
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سال مکمل ہونے سے قبل ہی کابینہ کے اہم وزیروں کی وزارتیں تبدیل کرکے ان کی نئی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ 
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ میں اچانک بڑی تبدیلیاں کیوں کیں؟ وزرا اور مشیروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کابینہ کا خصوصی اجلاس کیوں نہیں بلایا؟ کابینہ میں اس ردو بدل سے حکومت کی کارکردگی کتنی بہتر ہو گی؟ ان اہم سوالات کے ہم یہاں جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان کی وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں اگرچہ غیر متوقع نہیں تھیں  اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا تھا تاہم اس ردوبدل کو کچھ قبل از وقت ضرور کہا جا سکتا ہے خاص طور پر جب حکومت آئندہ چند ہفتوں میں اپنا پہلا مکمل بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور وزیراعظم آفس نے 29 مارچ کو کابینہ ارکان کو ایک خط بھی لکھا تھا۔ خط میں ارکان کو دو ہفتوں میں اپنی گذشتہ تین ماہ کی کارکردگی رپورٹس مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
 کابینہ ارکان نے اپنی کارکردگی رپورٹس وزیراعظم آفس میں جمع بھی کروا دی تھیں جس کے بعد توقع تھی کہ وزیراعظم کابینہ کے خصوصی اجلاس میں وزرا اور مشیروں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، لیکن پہلے اچانک جمعرات کو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے ٹویٹ کے ذریعے وزارت سے اپنی علیحدگی سے متعلق آگاہ کیا اور بعد میں وزیراعظم آفس کے اعلامیے کے ذریعے کابینہ کے بڑے بڑے مہرے اپنی جگہ سے کھسکتے نظر آئے۔
حکومتی ٹیم کے کپتان وزیراعظم عمران خان کے اوپننگ بیٹسمین وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر مہنگائی، روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے باعث اپوزیشن کے نشانے پر سرفہرست تھے۔
سینیئر سیاسی تجزیہ کار حامد میر نے اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسد عمر کے خلاف پارٹی کے اندر جہانگیر ترین لابی سرگرم تھی۔ فواد چودھری،فیصل واوڈا اور مراد سعید کابینہ اجلاسوں میں انہیں ٹف ٹائم دیتے۔ 
حامد میر نے کہا مہنگائی اور دیگر ایشوز اپنی جگہ موجود ہیں لیکن میری نظر میں اسد عمر کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
سینیئر تجزیہ کار عارف نظامی کا کہنا ہے کہ اسد عمرکو ہٹانا وزیراعظم کی اپنی ناکامی ہے، وہ سارا ملبہ اسد عمر پر ڈال کر خود پوتر ہو گئے ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جہانگیر ترین گروپ اسد عمر کے خلاف تھا لیکن اسد عمر کی پالیسیوں سے کوئی خوش بھی تو نہیں تھا۔ آئی ایم ایف پیکج پر بھی وہ ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔
ترجمان وزیراعظم ندیم افضل چن نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کابینہ میں ردوبدل کو معمول کی کارروائی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کابینہ میں تبدیلیاں کیں۔
وزیراعظم عمران خان نے حکومتی ترجمان فواد چودھری کو بھی وزارت اطلاعات سے ہٹا دیا۔ فواد چودھری کا دور بھی تنازعات سے بھرپور رہا، مشاہد اللہ کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے سینیٹ میں داخلے پر پابندی لگوا بیٹھے۔ ایم ڈی پی ٹی وی کے ساتھ ان کا جھگڑا کافی مشہور ہوا اور اسی بات پر نعیم الحق کے ساتھ ٹویٹر جنگ بھی ہوئی، اور تو اور وہ وزیراعظم کے سیکریٹری اعظم خان سے بھی سینگ پھنسا بیٹھے تھے۔
فواد چوہدری کو ہٹائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ فواد چوہدری میڈیا کو صحیح ہینڈل نہیں کر پا رہے تھے۔ انہوں نے ایم ڈی پی ٹی وی کے انتخاب کے لیے قائم کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ شامل کیے تھے جو وزیراعظم کوناپسند تھے۔
عارف نظامی کہتے ہیں کہ اگر حکومت اچھا کام نہ کر رہی ہو تو اس کا ذمہ دار وزیر اطلاعات کو سمجھا جاتا ہے۔ فواد چوہدری  نے وزیراعظم کے نامزد کردہ ایم ڈی پی ٹی وی کے خلاف یونین سے بغاوت کروائی اور یہ بات یقیناًوزیراعظم کو پسند نہیں آئی۔
اگر سابق وزیر صحت عامر کیانی کے بارے میں بات کی جائے تو وہ ان کا شمار تحریک انصاف کے بانیوں اور عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کی کارکردگی سے بھی سخت مایوس تھے۔ ان کے دور میں ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا تو وزیراعظم نے معاملے کا نوٹس لیا اور 72 گھنٹوں میں ادویات کی قیمتیں کم کرنے کی ہدایت کی، تاہم عامر کیانی وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کرا سکے تھے۔ جو ان کی نااہلی ثابت ہوئی۔
 

شیئر: