انسداد پولیو مہم پر افواہوں اور تشدد کے سائے
جمعرات 25 اپریل 2019 3:00
پاکستان میں پولیو کے موذی مرض کے خلاف جاری مہم کو ان دنوں مختلف عناصر کی طرف سے سازشوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف جہاں والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے گریزاں ہیں تو وہیں دوسری طرف شرپسند عناصر پولیو ٹیموں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
تشدد کے ایک تازہ واقعے میں آج پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں نامعلوم افراد نے پولیو ٹیم پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک خاتون رضا کار ہلاک جبکہ ایک زخمی ہو گئی ہے۔
کوئٹہ میں اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد کے مطابق چمن کے اسسٹنٹ کمشنر سمیع آغا نے بتایا کہ پولیو ٹیم پر حملہ چمن کے علاقے دامان میرالزئی میں ہوا۔
لیویز رسالدارچمن محمد حنفیا نے اردونیوز کو بتایا کہ جمعرات کی دوپہر پیش آنے والے اس واقعے میں ہلاک ہونے والی خاتون کا نسرین بی بی جبکہ زخمی خاتون کا نام راشدہ بی بی ہے۔
اُن کے مطابق مقتولہ کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے چمن کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچایا گیا ہے جبکہ زخمی خاتون کو علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
پولیو ٹیم کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ متاثرہ علاقے میں پولیو ٹیم کی حفاظت کے لیے کوئی سیکورٹی اہلکار تعینات نہیں تھا۔ اُن کے بقول چند لیویز اہلکاروں کو صرف گشت پر مامور کیا گیا تھا۔
تاہم لیویز رسالدار محمد حنیفا نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پولیو ٹیم کی حفاظت پر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے مگر وہ کچھ فاصلے پر موجود تھے جس کا موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے فائدہ اٹھایا اور سیکورٹی اہلکاروں کے پہنچنے سے قبل ہی وہ فائرنگ کر کے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں صوبہ بلوچستان میں انسداد پولیو ٹیم پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل جنوری 2018ء میں دو خواتین پولیو ورکرز جبکہ نومبر 2014ء میں تین خواتین سمیت چار پولیو ورکرز کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اسسٹنٹ کمشنر سمیع آغا کے مطابق لیویز کے اہلکاروں نے علاقے کی ناکہ بندی کر کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے جبکہ سلطان زئی کے علاقے میں پولیو مہم عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہے۔
پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے کوآرڈینیٹر راشد رزاق کے مطابق ملک گیر انسداد پولیو مہم میں بلوچستان میں 24 لاکھ 69 ہزار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
ان کے بقول مہم پہلا دن معمول کے مطابق گزرا تاہم دوسرے دن پشاور میں پیش آنےوالے واقعے کے بعد افواہیں پھیلنے کے باعث انسداد پولیو ٹیموں کو بعض علاقوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
راشد رزاق نے اردو نیوز کو مزید بتایا کہ کوئٹہ میں گزشتہ مہمات کے دوران بھی تین سے ساڑھے تین ہزار ایسے کیسز سامنے آتے رہے ہیں جن میں والدین بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیتے تھے۔
تاہم اس بار اس تعداد میں 50 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے اور اب کوئٹہ کے ساتھ ساتھ قلعہ عبداللہ اور پشین کے علاقوں میں بھی ایسے والدین کی تعداد بڑھ گئی ہے جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلانا چاہتے۔
راشد کے مطابق پاک افغان سرحدی ضلعے قلعہ عبداللہ اور اس کے سب سے بڑے شہر چمن میں تین ہزار سے زائد بچوں کے والدین نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم پشاور واقعے کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں والدین کے تحفظات دور کرنے کے لیے ہماری ٹیمیں مقامی سطح پر کام کر رہی ہیں۔'
راشد کے مطابق قلعہ عبداللہ اور چمن میں جمعیت علماء اسلام کے ایک سابق سینیٹر سمیت بعض سیاستدانوں کی جانب سے منفی بیانات کی وجہ سے بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'ہم نے کمشنر کوئٹہ اور ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ کو کہا ہے کہ وہ ان لوگوں سے بات کر کے مسئلہ حل کریں۔'
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ شفقت انور شاہوانی کا کہنا ہے کہ ضلعے میں ایک لاکھ 47 ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جانے تھے مگر پشاور میں پولیو کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹا پراپیگنڈہ چلنے کے باعث ان کے لیے ہدف پورا کرنا مشکل ہو گیا۔
خیال رہے کہ تین روزہ انسداد پولیو مہم بدھ کو ختم ہونا تھی تاہم نئی صورتحال کے پیش نظر مہم میں ایک ہفتے تک کی توسیع کردی گئی ہے۔
شفقت انور کے بقول والدین کو پولیو کے قطرے پلانے پر آمادہ کرنے کے لیے وہ قبائلی عمائدین اور علماء کرام کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔
کوئٹہ میں نجی سکولوں کے مالکان کی تنظیم پرائیوٹ سکول گرینڈ الائنس نے بھی پشاور واقعے کے بعد تنظیم سے وابستہ بلوچستان کے تمام نجی سکولوں میں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔
تنظیم کے ترجمان نذر بڑیچ کا اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کئی سکولوں سے یہ شکایات موصول ہوئی تھیں کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر والدین سکول انتظامیہ سے لڑتے ہیں۔ لہذا انھوں نے اپنی ذمہ داری پر بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ سکولوں کی بجائے گھروں میں والدین بچوں کو اپنی مرضی اور موجودگی میں قطرے پلائیں۔
تاہم ان کے مطابق 'بعد میں ہم نے انسداد پولیو حکام سے مذاکرات کر کے طے کیا کہ ہم اس مرتبہ سکولوں میں بچوں کو انسداد پولیو قطرے پلائیں گے مگر کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کی ذمہ داری پولیو ٹیم پر عائد ہو گی۔'
پولیو ایمرجنسی سینٹر کے کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ 'بیکن ہاؤس جیسے بعض بڑے نجی ادارے بھی پولیو مہم کا حصہ نہیں بنتے اس لیے ہم نے محکمہ تعلیم سے کہا ہے کہ ان سکولوں کو واضح اور تحریری احکامات کے ذریعے ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ انسداد پولیو مہم میں ہمارا ساتھ دیں۔'
واضح رہے کہ چمن میں پولیو ٹیم پر حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک دن قبل ہی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیو کے دو نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق نئے کیسز خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں اور شمالی وزیرستان کے اضلاع میں سامنے آئے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی پاکستان میں رواں سال رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال مجموعی طور پر 11 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
خیبر پختونحوا میں کیا ہوا؟
گذشتہ روز پاکستان کے صوبہ خیبر پختونحوا کے ضلع بونیر کی یونین کونسل الٰہی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔
یہ واقعہ انسداد پولیو مہم کے دوران بچوں کی حالت غیر ہو جانے کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں کے سامنے آنے کے ایک روز بعد پیش آیا تھا۔
خیال رہے کہ پیر کو پشاور کے مضافاتی علاقے بڈھ بیر میں انسداد پولیو مہم کے دوران قطرے پینے سے بچوں کی طبعیت بگڑنے کی افواہیں سامنے آئی تھیں۔ ان افواہوں نے اس وقت زیادہ زور پکڑا جب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔
'سوشل میڈیا پر مہم کو روکنے کی ضرورت'
نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے سابق کوارڈینیٹر ڈاکٹر رانا محمد صفدر کے مطابق اس وقت صورتحال پریشان کن ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ماضی میں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کے کیسز کم تھے لیکن حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے چلائی جانے والی منظم مہم کی وجہ سے ایسے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ سوشل میڈیا پر پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مہم کا نوٹس لیا جائے۔
بری خبروں کے انبار میں 'اچھی خبر'
بدھ کے روز پاکستان کی انسداد پولیو کے حوالے سے پشاور سے ایک اچھی خبر یہ سامنے آئی ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پشاور کے علاقے شاہین ٹاؤن کے کے سیوریج کے پانی سے پہلی مرتبہ پولیو وائرس نہیں ملا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اسے پاکستان کی انسداد پولیو کی کوششوں میں بہت بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کہ مطابق یہ پولیو فری پاکستان کی جانب بہت بڑی پیش رفت ہے۔
واضح رہے شاہین ٹاؤن کی سیوریج لائن کے سیمپل کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ اس میں پشاور کی ان 18 یونیں کونسلوں گندا پانی بہتا ہے جہاں والدین کی جانب سے پولیو کے قطرے نہ پلانے کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔